Skip to product information
Why I Write Essay | George Orwell | میں کیوں لکھتا ہوں

Why I Write Essay | George Orwell | میں کیوں لکھتا ہوں

Sale price  Rs.475.00 PKR Regular price  Rs.600.00 PKR

Reliable shipping

Flexible returns

 

میں کیوں لکھتا ہوں     جارج آرویل

میں نے اس کتاب کا آغاز جرمن بمباری کی گونج میں کیا تھا اور اب اس دوسرے باب  کا آغاز اس گھن گرج   میں کر رہا ہوں جو توپوں کی گولہ باری سے پیدا ہو رہی ہے ۔پیلے شعلے آسمان کو روشن کر رہے ہیں ،  بموں کے ٹکڑے چھتوں پر گر کر کھڑکھڑا رہے ہیں، اور لندن برج از فالنگ ڈاؤن ، فالنگ ڈاؤن، فالنگ ڈاؤن۔۔۔۔۔

شاید انگلینڈ کو ٹینکوں  کی اشد ضرورت تھی ،مگر شاید موٹر کار یں  بنانا زیادہ منافع بخش تھا۔ ایک صنعتکار کی  سب سے بڑی ذمہ داری ہے اس کے شیئر ہولڈرز کے مفاد کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ دشمن تک جنگ مواد کی ترسیل روکنا عقلمندی ہے، مگر اعلی ترین قیمت پر فروخت کرنا ایک کاروبار ی اصول ہے۔

 اگست 1939 آخری دنوں میں جبکہ جنگ محض ایک یا دو ہفتے کے فاصلے پرتھی ،  برطانوی تاجروں میں جرمنی کو ٹین ،  ربڑ ، تانبہ اور شیلک فروخت کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی کو استرا   بیچ کر اپنے گلے پر چلانے کے لیے دے دینا ۔مگر یہ اچھا کاروبار تھا ۔

اب ذرا نتائج پر نظر ڈالیں 1934 کے بعد یہ واضح ہو چکا تھا کہ جرمنی مسلح ہو رہا ہے۔ 1936 کے بعد ہر باشعور شخص جان چکا کہ جنگ آنے والی ہے۔ ستمبر ۱۹۳۹ میں جنگ چھڑ گئی اٹھ ماہ بعد معلوم ہوا کہ جنگی ساز و سامان کے لحا ظ برطانوی فوج بمشکل 1918 کے معیار سے آگے بڑھی تھی ۔ہم نے اپنے فوجیوں کو سمندر کی طرف پسپا ہوتے دیکھا ایک جہاز کے مقابلے میں تین دشمن جہاز ،  بندوقوں کے مقابلے میں ٹینک، سنگینوں کے مقابلے میں ٹومی گنیں۔ یہاں تک کہ تمام افسران کو پستول فراہم کرنے کے لیے بھی کافی تعداد میں ہتھیار موجود نہ تھے ۔  جنگ کے ایک سال بعد بھی،  باقاعدہ فوج کے پاس تین لاکھ ٹین  ہیلمٹ کم تھے۔ اس سے قبل ،وردیوں کی بھی قلت ہو چکی تھی اور یہ اس ملک میں ہو رہا تھا  جو دنیا کا سب سے بڑا  اونی کپڑا پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

یہ سب اس لیے ہوا کہ سرمایہ دار طبقہ اپنی طرز زندگی میں کسی بھی بڑی تبدیلی کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ تھا اس نے فاشزم اور جدید جنگ کی حقیقت کو نظر انداز کر دیا عام عوام کو جھوٹے امید افضا خواب دکھائے جا تے رہے ، اور یہ کام گٹر پریس نےکیا، جو اپنی آمدن اشتہا رات سے حاصل کرتی تھی اور اس لیے تجارت کو معمول کے مطابق جاری رکھنے میں یہ اپنا فائدہ دیکھتی تھی ۔سالہا سال تک بیورو بروک پریس بڑے بڑے شہ سرخیوں میں ہم یقین دلاتی رہی کہ جنگ نہیں ہوگی ۔اور جب انگلینڈ تباہی کے دہانے پہ پہنچا تو ہر جنگی ساز و سامان کی قلت تھی سوائے بحر جہازوں کے۔ مگر کہیں یہ ذکر موجود نہیں کہ موٹر کاروں ، فر کوٹ ، گرامر فون ، لپ اسٹک ، چاکلیٹ یا ریشمی جرابوں کی قلت ہوئی ہو۔ اور کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ آج بھی نجی منافع اور قومی ضرورت کے درمیان یہی کشمکش جاری رہے ؟انگلینڈ اپنی بقا  کی جنگ لڑ رہا ہے، مگر کاروبار کو اپنے منافق کی جنگ لڑ نی ہے ۔صفحہ نمبر ۷۷۔۷۸

Pages 144

ISBN 9786273002712

You may also like