
فلسفہ کیا ہے ؟ | Falsafa Kaya hay ? | Taqi Haider
Reliable shipping
Flexible returns
فلسفہ کیا ہے؟
ہر شخص کو چاہے وہ علمی سرگرمی سے، سیاسی جدوجہد سے یا انقلابی تحریک سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، یہ فکر ضرور ستاتی ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کیسی ہو گی۔انسان کو کس چیز کا سامنا کرنا پڑےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگ کی ہولناک آگ کا یا پرامن زندگی کا؟ یہ زمین کی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر گھاس پیڑ پودوں، جانوروں اور پرندوں کے لئے جگہ رہ جائے گی یا سائنسی و تیکنیکی ترقی ساری جاندار چیزوں کی تباہی اور ان کی موجب بن جائے گی؟ کیا آخر کار جبر و استبداد اور سماجی ناانصافی ساری دنیا سے ناپید ہو جائے گی یا دائمی ہیں؟ یہ سوالات ساری انسانیت کے لئے روئے زمین کے ہر انسان کے لئے مشترک میں- ان سولات کی جواب دینے کے لئے اور ان کے صحیح حل تلاش کر سکنے کے لئے فلسفہ کا علم درکار ہے۔
لفظ فلسفہ دو یونانی لفظوں سے مل کر بنا ہے : "فیلو" (حب) اور "صوفیہ" (دانش) یعنی
فلسفہ سے مراد حب دانش۔
انسان کے چاروں طرف پھیلی ہوئی دنیا بہت بڑی ہے اس کی کوئی حد و انتها نہیں۔
انسان بس یہ کر سکتا ہے کہ رفته رفته قدم به قدم اس کی پہیلیاں کو بوجھے لیکن وہ کلی طور پر اس کا ادراک کبھی نہیں کر سکتا۔ فلسفہ اپنے آپ میں حامل ہے انسان کی مسلسل جستجو کی، لا محدود کا علم حاصل کرنے کی، ساری موجودات کے 'علت و معلول' کا علم حاصل کرنے کی کاوش کا اور اس کے ماحصل پر شک کرنے کا۔ عہد قدیم کے فلسفی افلاطون کا ہے یہ سمجھنا بے معنی نہیں تھا کہ فلسفے کی ابتداء حیرت و استعجاب سے ہوتی ہے۔
عہد عتیق ہی میں فلسفہ اور اس کے مفہوم کے بارے میں بہت ہی مختلف تصورات
نمودار ہو گئے تھے۔ عظیم یونانی مفکر ارسطو تجھتا تھا کہ سارے علوم کا وجود کسی نہ کسی افادہ کے لئے ہے اور صرف فلسفہ ہی ' واحد آزاد علم ہے اس کے اسکا وجود صرف اپنے لیے ہے'. اس کے ساتھ ہی اتنے ہی معروف قدیم مفکر اور خطیب سیسیرو کا دعویٰ بہ ظاہر اس کے برعکس تھا: "ہم بھاگ کر تیرے پاس آتے ہیں تجھ سے مدد مانگتے ہیں ................. اے فلسفہ تو رہنمائے زندگی ہے، تیرے بغیر کیسے وجود رہ سکتا تھا، صرف ہمارا ہی نہیں ساری انسانی زندگی کا۔! کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ فلسفے کو مذہب سے الگ نہیں کیا جا سکتا وہ مذہبی احکامات کو بہتر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسرے لوگ اس رائے کے حامی تھے کہ فلسفے کی بنیاد تشکیک اور عقل پر ہے۔ اس لئے وہ مذہب کا اہم مقام نہیں ہو سکتا جس کی بنیاد عقیدے پر ہے۔
فلسفے کی حقیقت اور مفہوم کے بارے میں معاصر مفکرین کے درمیان اس سے بھی
زیادہ اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سائنس کے بارے میں تعلیم ہے۔
دوسرے لوگ اسے فن سے قریب تر قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ، جیسے کہ فرانسیسی ادیب و مفکر البیر کامیو سمجھتے ہیں کہ صرف ایک ہی واقعی فلسفیانہ مسئلے کا وجود ہے اور یہ مسئلہ ہے خودکشی۔ اور آخر میں ایک چوتھی جماعت ہے جو تجویز کرتی ہے کہ اصطلاح "فلسفہ" کو بالعموم رد کر دیا جانا چاہئے۔
ان قسم قسم کی رایوں میں سے انتخاب کر سکنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود فلسفے
کے ماخذ ہی کی طرف رجوع کریں۔ فلسفہ کب اور کہاں نمودار ہوا؟ فلسفیانہ فکر کو کیوں کچھ سماجوں میں تیزی سے ارتقا حاصل ہوا اور دوسرے سماجوں میں سست رفتاری سے؟ کیا ساری قوموں میں فلسفیانہ دانش کا مالک بنے کی اہلیت ہے؟ ان اور دوسرے سوالوں پر غور کرتا ہمارے لئے ضروری ہے۔
فلسفہ کیا ہے ؟
گالینا کیر یلنکو / لیدیا کور شنووا
ترجمہ | تقی حیدر