
پروفیسر منگل موری کے ساتھ | Mangal Professor Mori K Sath | Mitch Album
Reliable shipping
Flexible returns
Tuesdays With Morrie
تجزیہ: علی رضا کوثر
کئی لوگ موت سے ڈرتے ہیں تو کئی مطمئن ہوتے ہیں۔ موت سے ڈرنے والے ان گنت ہیں مگر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے ویلکم کرنے والے انگلیوں پہ گنے جاسکتے ہیں۔ پروفیسر موری بھی ان میں سے ہے۔
پروفیسر موری کو ایک ایسی بیماری نے جکڑ لیا جو آدمی کو کسی موم بتی کی طرح پگھلا دیتی ہے۔ پیروں کی طرف سے سر کی جانب بڑھتی ہوئی یہ بیماری پہلے جسم کے اعضاء کو ناکارہ بناتی ہے پھر ہڈیوں کو پگھلاتی ہے اور آہستہ آہستہ جسمانی حرکت پر بندش ڈالتی ہے۔ حتہ کے اخیر میں آواز بھی بند ہوجاتی ہے۔ مگر پروفیسر موری ایسی بیماری سے ڈرنے والا کہاں؟ وہ تو موت کو بھی دوست سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے "موت بھی اسی سودے بازی کا حصہ ہے جو ہم بہت پہلے کرکے آئے ہیں"۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا۔ وہ تو موت سے شناسائی کو زندگی جینے کا ہنر مانتا ہے۔ وہ کہتا ہے "اگر تم یہ سیکھ لو کہ مرنا کیسے ہے، تم جینا خود ہی سیکھ جاؤگے"
یہ بات حیران کن ہے۔ زندگی کی اسٹیشن پر موت کی ریل گاڑی کا منتظر یہ بوڑھا پروفیسر کتنا مطئمن ہے۔ یہ سوچ کر بھی عجب احساس ہوتا ہے۔ ہم لوگ زندگی سے مطمئن نہیں ہوپاتے مگر موری موت سے بھی مطئمن ہے۔
موری کا شاگرد، مچ البوم، جو اس کتاب کا مصنف ہے وہ ایک لاپرواہ اور مصروف شخص ہے جو اپنی زندگی میں اپنے اور اپنوں کیلئے کم جیتا ہے اور دھن دولت کیلئے زیادہ۔ وہ رشتوں کا خاص خیال نہیں رکھتا۔ اپنی منگیتر کو بھی وقت نہیں دیتا۔ اور نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ اسکی منگیتر اس سے جدا ہونے پر اسرار کرتی ہے۔ ایسے مچ البوم کو ایک مرتا ہوا پروفیسر بدل دیتا ہے۔ بے مقصد زندگی جینے والے کو بامقصد زندگی جینا سکھا دیتا ہے۔ آدمی کو انسان بنا دیتا ہے۔ پتھر کو دل میں بدل دیتا ہے۔
اس کتاب میں آپ زندگی اور موت کا مفہوم سمجھیں گے۔ ایک بوڑھا شخص جسے زندگی سے ہاتھ چھڑا کر موت کا ہاتھ تھامنا ہے، دیکھیں وہ یہ کس طرح کرتا ہے۔ وہ زندگی کو بھی جیتا ہے تو موت کو بھی۔ وہ زندگی سے بھی محبت کرتا ہے تو موت سے بھی۔ وہ اپنی بیماری سے کسی کو ڈسٹرب نہیں کرتا۔ زوجہ اور بچوں کو اپنے اپنے کام کرنے کا کہتا ہے۔ انکے معمول کو توڑنا مناسب نہیں سمجھتا۔ یہ بوڑھا پروفیسر مرنے کے بعد کے رونے دھونے اور اچھے الفاظ سے یاد کرنے کو ترجیع نہیں دیتا بلکہ زندگی میں ہی یہ سب کرنے کو بہتر مانتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنا فیونرل مناتا ہے۔ رشتیداروں اور دوستوں کو بلاتا ہے۔ مچ البوم بھی وہاں پہنچتا ہے۔ سب مل کر اس کا فیونرل مناتے ہیں۔ الودائی تقاریر کرتے ہیں۔ موری کے لئے آنسو بہاتے ہیں۔ ان کو اچھے الفاظ سے نوازتے ہیں۔ نظمیں پڑھتے ہیں۔ اور موری کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے رخصت لیتے ہیں۔ یوں موری اپنی آخری رسوم اپنے سامنے ادا کرواتا ہے۔
موت کی آغوش میں لیٹا ہوا یہ شخص، کبھی بھی سو سکتا ہے۔وہ کسی وقت بھی مر سکتا ہے۔ اور یہ وہ بھی جانتا ہے۔ مگر وہ اپنے آخری ایام کھل کر جیتا ہے۔ہر منگل کو وہ اپنے شاگرد اور دوست مچ البوم سے ملتا ہے۔ دونوں مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ مچ یہ گفتگو رکارڈ کرتا ہے۔ جو کہ بعد میں اس کتاب کی صورت لیتی ہے۔ موری اپنے مطالعے کے کمرے میں کتابوں کی بیچ آخری دن گزارتا ہے۔ جہاں وہ لیٹا رہتا ہے وہاں پاس میں کھڑکی ہوتی ہے جہاں سے وہ اپنے پسند کے پھول دیکھتا ہے۔ جب تک ہاتھوں میں دم رہتا ہے اسکے ہاتھوں میں قلم رہتا ہے۔ مگر پھر قلم اٹھانا بھی ناممکن بن جاتا ہے۔ وہ بات کرتا ہے بحث کرتا ہے اور مچ کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ مگر دھیرے دھیرے آواز بھی ساتھ چھوڑنے سلگتی ہے۔
پروفیسر موری اتنا مضبوط ہے کہ دن کو ہر کسی کے آگے اس کے چہرے پر موت کے خوف کی ایک جھلک تک نظر نہیں آتی۔ وہ ہر دم مسکراتا ہے۔ مگر یہ پہاڑ جیسا جگر رکھنے والا بندہ جب رات کو سوتا ہے اور آدھی رات کو آنکھ کھل جائے اور نیند نہ آئے تو موت کا سوچ کر روتا ہے۔ وہ ڈر سے نہیں روتا شاید اپنوں سے جدا ہونے کی وجہ سے روتا ہے۔ مگر دن میں کسی کو کوئی دکھ محسوس نہیں کرنے دیتا۔ وہ مچ البوم سے کہتا ہے کہ "مجھے اس بیماری میں اب سے زیادہ خوفناک چیز جو لگتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ بیماری جلد میری حالت ایسی کردے گی کہ بات روم جانے کے بعد میری مخصوص جگہ کو کوئی اور صاف کرے گا"۔
پروفیسر موری کہتا ہے "مچ۔۔۔! یہ بات نہیں کہ ہمیں فقط اوروں کو معاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ہمیں خود کو بھی معاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔" خود کو معاف کرنا۔ یہ بات انوکھی ہے مگر ہمیں واقعی ایسا کرنا ہوتا ہے۔ ہم بہت بار وہ نہیں کرپاتے جو کرنا چاہتے ہیں۔ خود کو وقت نہیں دے پاتے۔ زندگی کو بھرپور نہیں جی باتے۔ ایسے میں خود کو بھی معاف کرنا ہوگا اور زندگی سے بھی معذرت کرنی ہوگی۔
موری اپنی موت سے باخبر ہے۔ تبھی وہ اپنی زندگی اچھی جیتا ہے۔ وہ اپنے مرنے کے بعد قبر کی جگی بھی ایسی منتخب کرتا ہے کہ جہاں قبر کے نزدیک دریا بیتا ہو۔ وہ اپنی قبر میں بھی زندگی کو جینا چاہتا ہے۔ وہ قبر سے بھی لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ موری اور مچ چونکہ ہر منگل کو ملتے ہیں اسلئے موری مرنے کے بعد بھی مچ کو اسکی اپنی قبر پر ہر منگل آنے کو کہتا ہے۔ وہ کہتا یے ہر منگل آنا ہم یونہی گفتگو کرینگے۔ مچ کہتا ہے "مگر آپ تو جواب نہیں دے پائینگے"۔ موری کہتا ہے "پھر تم بات کروگے اور میں سنوں گا۔"
موری کے تدفین کے بعد مچ نے تصور میں موری سے بات کی تو اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے موری نے اسے جواب دیا ہو۔ مچ حیران ہوا اور گردن جھکا کر اپنی گھڑی کو دیکھا تو اسے سارہ معاملہ سمجھ میں آگیا۔ یہ دن منگل کا دن تھا۔