
Haider Qureshi Ke Afsannon Ka Mutalea | Kalsoom Rouqia |
Reliable shipping
Flexible returns
میرے افسانوں پر کامران کاظمی نے اپنے ایم فل کورس ورک کا مختصر مقالہ ڈاکٹر رشید امجد کی نگرانی میں مقالہ امجدی نگرانی میں ۲۰۰۶ء میں لکھا تھا۔ یہ مقالہ کتاب کے طور پر چھنے والا تھا لیکن پھر یہ سارے متعلقین کی اپنی اپنی مصروفیات یا ترجیحات میں گم ہو گیا۔ اب کلثوم رقیہ نے اس گم شدہ مقالے کو نہ صرف از سر نو دریافت کیا ہے بلکہ اس کی ترتیب و میں کم ہوگیا۔ رقیہ نے اس کم مقالے کون صرف اس تدوین کر کے اسے شائع کرنے لگی ہیں۔ میرے لئے یہ بڑی خوشی کی خبر ہے۔ میں کلثوم رقیہ کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
حیدر قریشی
حیدر قریشی کی شخصیت بہت ہمدرد اور رکھ رکھاؤ کی مالک ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان افسانوں کا جائزہ لینا نصابی ضرورت کا ہی سہی مگر بہت مشکل کام تھا۔ تاہم اسے میرے ساتھ ہر سطح پر حیدر قریشی کے تعاون نے ممکن بنادیا۔ نصابی ضرورت پوری ہونے کے بعد میرے ذہن میں یہ خیال موجود تھا کیوں نہ اب اس مختصر مقالے کو با قاعدہ کسی کتاب کی شکل دے دوں ۔ اس خواہش کا اظہار ڈرتے ڈرتے میں نے حیدر قریشی سے کیا اور ان کی رضا مندی بھی حاصل کر لی مگر کیا کروں اس است طبیعت کا کہ یہ کتاب محض میری وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔
حیدر قریشی کا نظریہ زندگی کیا ہے؟ اور کیا وہ اپنے نظریے کو اپنے تخلیقی اظہار کا شعوری لازمہ خیال کرتے ہیں؟ کیا کسی بھی نظر یے کو تخلیق میں ضرور اظہار پانا چاہیے۔ چاہے وہ اس تخلیق کا تخلیقی حصہ بن بھی پائے یا نہ بنے؟ یہ سوال گنجلک بھی ہیں اور اختلافی بھی۔ البتہ افسانے کا بنیادی لازمہ کہانی ہے چاہے اس میں نظریہ موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر فنکار کا زندگی کے بارے میں نظریہ یا نقطہ نظر اس کی تخلیق میں رچ بس کر آئے اور وہ اس کا تخلیقی حصہ معلوم ہو تو اس میں قباحت بھی کیا ہے۔ یقینا اسے فورا مقصدی ادب کہہ دیا جائے گا۔ ادب کا کسی نہ کسی سطح پر کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے کیونکہ ادب کا تعلق اپنے معاشرے سے قریبی نہ سہی، عملی، ضرور ہے ۔ ۶۰ء کے نئے لکھنے والوں نے مقصدی ادب میں کیڑے نکالنے کا کام کیا اور ایسا انہوں نے ترقی پسند تحریک کے رد عمل میں کیا۔ بات طویل ہوتی جارہی ہے بنیادی مقصد یہی تھا کہ میں ان کہانیوں کو سمجھنے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ آپ پر ہے اور آپ کی حوصلہ افزائی اور رائے کا منتظر رہوں گا۔
کامران کاظمی