
سہ ماہی تاریخ 55 | ڈاکٹر مبارک علی | Banned Books
Reliable shipping
Flexible returns
سہ ماہی تاریخ 55
تبصرہ کوثراسلام
پاکستان میں تاریخ کے حوالے سے جتنا کام ڈاکٹر مبارک علی نے کیا ہے شاید ہی کسی اور نے کیا ہو. تاریخ کے حوالے سے درجنوں کتب کے علاوہ ان کا سہ ماہی مجلہ "تاریخ" باقاعدگی سے فکشن ہاوس سے شائع ہوتا ہے. سہ ماہی تاریخ کے اب تک تقریبا 60 شمارے شائع ہو چکے ہیں. ان میں سے ہر شمارہ اپنی جگہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے.
پچھلے دنوں شمارہ نمبر 55 پڑھا. پہلا مضمون فرنگی حکومت کے تحت ہندوستانی معیشت کی نو آباد کاری کے متعلق ہے جسے پروفیسر عرفان حبیب نے لکھا ہے اور اس کا ترجمہ پروفیسر انور شاہین نے کیا ہے.
ہندوستانی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بے حد مفید مضمون ہے اس میں 1757 سے لے کر 1900 تک ہندوستانی معیشت کی نو آباد کاری کے مختلف مراحل کو ذکر کیا گیا ہے.
پہلے حصے میں برطانوی حکومت کو ہندوستان سے حاصل ہونے والے سرمایے، لگان اور ٹیکس کے متعلق کافی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے. 1779 میں صرف بہار اور بنگال سے 1،823،407 پونڈ حاصل کیے گئے. 1800 میں صنعتی ترقی کے اہم مرحلے پر ہندوستان انگلستان کو جو رقم فراہم کر رہا تھا وہ اس کی قومی بچتوں کا 30 فیصد حصہ تھا.
زمین اور کاشت کے متعلق اہم امور اور اعداد و شمار تجارت درآمدات برآمدات ہندوستانی منڈی پر انگلستانی مصنوعات کا غلبہ بڑے زمینداروں اور سامراج کا اتحاد بورژوائی اور ولتاریہ طبقوں کا جنم اور کئی دیگر اہم امور اس مضمون کا حصہ ہیں. مضمون کے آخر میں 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی حوالہ جات ہیں.
دوسرا مضمون سول سوسائٹی کے متعلق ہے جس میں ہیگل اور مارکس کا ایک تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے. اس مضمون میں ہیگل اور مارکس کی سول سوسائٹی کی تعریف نظریات نظام مسائل دونوں کے درمیان اختلاف اور حل کو تفصیلا ذکر کیا گیا ہے.
ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے مضمون میں کتابوں پر پابندی سے متعلق بہت مفید اور دلچسپ امور کا ذکر کیا ہے. کتابوں پر پابندی کیوں لگائی گئی. پاکستان سمیت دیگر ممالک میں کون کون سی کتابیں کب اور کیوں پابندی کا شکار ہوئیں. ڈاکٹر صاحب نے یہ سب کچھ کافی تفصیل سے ذکر کیا ہے.
"کراچی تھیوسفیکل سوسائٹی" یہ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کا مضمون ہے. تھیوسفی دو یونانی الفاظ کا مرکب ہے جس کا مطلب ہے الہامی علوم. اس کا تصور پہلی بار تیسری صدی میں سکندریہ کے فلسفیوں کی بحث میں سامنے آیا. جدید عہد میں تھوسفیکل سوسائٹی کا قیام 1875 میں نیویارک میں وجود میں آیا. اولکاٹ اس کے بانی صدر مقرر ہوئے. اس کے قیام کے تین مقاصد تھے.
1. کسی نسلی مذہبی جنس ذات پات اور رنگ کی تفریق کیے بنا تمام انسانوں کا ایک مشترکہ گروہ تشکیل دینا
2. تمام مذاہب فلسفے اور سائنس کے تقابلی جائزے کو فروغ دینا.
3. کائنات کے مخفی قوانین کی تحقیق کرنا اور انسان کے اندر پائی جانے والی قوت کا پتا چلانا.
کراچی تھیوسفیکل سوسائٹی کا قیام 21 دسمبر 1896 کو عمل میں آیا.
اس مضمون میں سوسائٹی کے ابتدا سے لے کر خاتمے تک کے سفر کو تفصیلا بیان کیا گیا ہے.
ڈاکٹر غلام عباس نے نستعلیق کی تاریخ نہایت مفصل اور مدلل انداز میں پیش کی ہے.
مقتدا منصور نے طلبا تنظیموں کی تاریخ ذکر کی ہے. 1950 سے 1980 تک کے درمیانی عرصے میں اس کا تجزیہ کیا گیا ہے.
پاکستان میں فن تعمیر کے حوالے سے ڈاکٹر غافر شہزاد کا بہت عمدہ مضمون شامل ہے
ڈاکٹر مبارک علی صاحب نے چائے کی تاریخ ذکر کی ہے.. ہمالیہ کے جنگلیوں سے چائے برما کے بخشووں اور پھر ان سے ہوتے ہوئے چین اور یورپ پہنچ گئی. یورپ کے لوگ 1610 میں اس سے روشناس ہوئے. انگلستان کے لوگ 1662 کے بعد چائے سے واقف ہوئے. امریکہ میں 1773 میں چائے کے خلاف احتجاج کیا گیا. چائے کے صندوق سمندر برد کئے گئے. چائے کا استعمال وطن سے غداری سمجھا جاتا. ڈاکٹر صاحب نے یہ پوری تاریخ بہت خوبصورتی کے ساتھ ذکر کی ہے ساتھ ساتھ چائے کا معاشرتی اور سماجی زندگی پر اثرت کا تجزیہ بھی کیا ہے.
دوسرے حصے میں تین کتابوں "smoke without fire" "پشتون کون" اور "فریب ناتمام" پر تفصیلی تبصرہ ہے.
آخر میں آئین اکبری کے اہم آئین ذکر کیے گئے ہیں. آئین اکبری اکبر نامہ کا حصہ ہے جسے ابوالفضل نے لکھا تھا. ان آئین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر نے مغل سلطنت کو کس خوش اسلوبی سے منظم کیا تھا.