Skip to product information
روشنائی | سجاد ظہیر | Roshanai | Sajid Zaheer

روشنائی | سجاد ظہیر | Roshanai | Sajid Zaheer

Sale price  Rs.300.00 PKR Regular price  Rs.500.00 PKR

Reliable shipping

Flexible returns

تاثرات: محمد فواد انور

روشنائی “ ترقی پسند ادب کا ایک تاثراتی جائزہ ہے۔

ترقی پسندی سے مراد معاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرنا، حیات آفریں عناصر کا ساتھ دینا اور مرگِ آفریں قوتوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ لہٰذا وہ وحشی قبیلے بھی ترقی پسند تھے جنہوں نے سب سے پہلے انسانی توانائی میں اضافے کی خاطر تیر کمان ، بلّم اور بھالے بنائے۔ آگ کا استعمال دریافت کیا۔ مویشی پالے، کھیتی باڑی شروع کی یا چاک پر مٹی کے برتن بنائے اور وہ پرانے مفکر بھی ترقی پسند تھے جنہوں نے ” آتش و آب، وخاک و باد “ کے حوالے سے کائنات کی مادی تشریح کی، یا یہ کہہ کر کہ انسان ہی تمام چیزوں کا پیمانہ ہے، بشر کو عظمتِ بشر کا احساس دلایا اور وہ لوک شاعر اور گویے بھی ترقی پسند تھے جنہوں نے اپنے گیتوں ، گانوں سے چند لمحوں ہی کے لیے سہی، لوگوں کو خوش کیا اور ان میں جینے کا عزم ، ہمت نہ ہارنے کا حوصلہ اور سچ کے لیے جان دینے کی جرات پیدا کی۔

( روشنائی ، ص11)

کچھ ” روشنائی “ کتاب کے بارے میں ؛

ترقی پسند تحریک پر اب تک جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں اس میں ’روشنائی ‘ اپنا ایک منفرد اور مخصوص مقام رکھتی ہے کیونکہ اسے ایک ایسے شخص نے قلم بند کیا ہے جو اس کے بانیوں میں تھا اور زندگی کی آخری سانس تک اس کی قیادت کو احسن طریقہ سے انجام دیتا رہا۔ ان کا یہ خیال کہ ہماری ادبی تحریکوں کے مؤرخ کے لیے یہ کتاب مفید ثابت ہوگی ،بے جا نہیں ہے۔

(ضمیر نیازی ، ’جائزوں کا جائزہ‘ ، ’ پاکستانی ادب‘ اکتوبر 1977)

ترقی پسند تنقید میں ان کی اہمیت ایک رہنما کی ہے۔ انہوں نے ماضی کے ادب کو پرکھنے کے لیے ایک نیا نقطہء نظر دیا اور ان نوجوانوں کے خلاف آواز بلند کی جو جاگیردارانہ عہد کے تمام ادب کو رجعت پسند تصور کرتے تھے ۔اس سلسلے میں ان کا نظریہ یہ تھا کہ ماضی کی ساری چیزوں کو منظم کر لینا چاہیے اور فاسد چیزوں کو رد کر لینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل تنقید احتیاط کا ہے اور اس میں سے فروگزاشتیں بھی ہو سکتی ہیں لیکن انہوں نے جو بھی سرمایہ اپنی عملی تنقید کا پیش کیا ہے اس سے ان کی بالغ نظری کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔ انہیں مسلمانوں کے تہذیبی ورثے سے عظیم محبت تھی اور وہ اس تہذیبی ورثے سے ساری دنیا کو روشناس کرانا چاہتے تھے ۔

(ممتاز حسین ،”سجاد ظہیر کی ادبی خدمات “ طلوع افکار، نومبر 1973 )

روشنائی ترقی پسند ادب کا ایک تاثراتی جائزہ ہے۔ ہر چند کے یہ کتاب قریب قریب حافظے سے لکھی گئی ہے کیونکہ سجاد ظہیر کو جیل میں انجمن کی دستاویزیں میسر نہیں تھی اور نہ حوالے کی کتابیں آسانی سے ملتی تھیں۔ اس کے باوصف انہوں نے ترقی پسند ادب کی تحریک کی عہد بہ عہد ترقی کو بڑی دیانتداری سے قلم بند کیا اور ان اعتراضات کا بھی بڑی خوش اسلوبی سے جواب دیا ہے جو مخالف حلقوں کی طرف سے کیے جاتے تھے ۔ واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی چلی جاتی ہیں اور ان ادبی شخصیات کے خاکے بھی ابھرے آتے ہیں جن کی تخلیقی سرگرمیوں سے اس تحریک میں جان پڑی تھی۔ سجاد ظہیر شخصیت شناس ہونے کے علاوہ بڑے کامیاب شخصیت نگار بھی تھے۔ انہوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں کی تصویریں بڑے پیار سے کھینچی ہیں مگر سچ بات کہنے سے کہیں گریز نہیں کیا ہے، البتہ اس پیرائے میں ،کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔

(سید سبط حسن ،دیباچہ، ’روشنائی‘ )

You may also like