سودوزیاں کے درمیاں | SoDo Ziyan K Darmiyan | Khalid Fetah Muhammad
سودوزیاں کے درمیاں | SoDo Ziyan K Darmiyan | Khalid Fetah Muhammad
Regular price
Rs.250.00
Regular price
Rs.500.00
Sale price
Rs.250.00
Unit price
/
per
خالد فتح محمد کے ناول ’’سودوزیاں کے درمیاں ‘‘ پر ایک نوٹ
اگر غور طلب طریقے سے معاصر ناول کی تخلیقی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ناول کی خارجی اور داخلی ساخت میں تجربات ہوئے اور عموماً تجربات پر بے جاتنقید بھی ہوئی ۔تکنیک کی سطع پر کسی قسم کی پیچیدگی ہمارے لئے بے معنی ہی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ تو شاید کہ قاری اپنے ذہن کو ڈسٹرب کیے بغیر کڑی در کڑی کہانی پڑھنے کا خواہش مند تھا اور ہے ۔اس کے ساتھ پیچیدہ تکنیک ناقدین کے لیے بھی مسئلہ ہے (صرف وہ ناقدین جو کسی خاص تحریک یا نظریے کے پابند ہیں)
خالد فتح محمد اکیسویں صدی کا فکشن نگار ہے اور یہی حیران کن بات ہے کہ سفید بالوں والے گوتم نے نروان کی آخری سیڑھیوں پر قدم رکھتے لکھنا شروع کیا اور دو دہائیوں میں 9 ناول ،5 افسانے کے مجموعے اور 5 تراجم کی کتابیں شائع کروادیں۔۔۔ خالد کا شمار اُن اکادکا فکشن نگاروںمیں ہوتا ہے جس کے افسانے اور ناول باآسانی الگ الگ خانوںمیں رکھے جاسکتے ہیں اور یہ غیر معمولی بات ہے۔مگر اردو تنقید نے خالد کے ناولوں کے ساتھ نا مناسب طرز عمل اختیار کررکھا ہے۔
خالد کا نیا ناول ’’سود و زیاں کے درمیاں‘‘ ناول نگاری کے باب میں منفرد تجربہ ہے۔ناول کی کہانی پہلے صفحے سے ہی جکڑ لیتی ہے مگر آگے بڑھتے ہوئے سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ایک اور کہانی شروع ہوتی ہے جو ایک خاص مقام پر آکر رک جاتی ہے اور وہیں سے ایک اور کہانی ۔۔۔۔ خالد کا کمال فن یہ ہے کہ قاری پچھلا حصہ بھول کرآگے بڑھتا ہے اور ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ناول کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے جب ساری کہانیوں کی کڑیاں ایک دوسری سے ملتی ہیں تو حیرانی کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے ۔
خالد نے اس ناول میں نچلے اور متوسطہ طبقے کے لوگوں کے دکھوں، پریشانیوں اور الجھنوں کو پیش کیا ہے ۔ان کی کامیابی کے دو اہم اسباب کہ گہرے غوروفکر سے کام لے کر اپنے موضوع اور کردار کو اس انداز سے پلاٹ میں سمویا ہے۔ ہرمنظر، ہر مکالمہ یوں ناول کے قالب میں ڈھل جاتا ہے کہ احتجاج کا رنگ بھی نمایاں رہتا ہے اور امیدوں کی کرن بھی دکھائی دیتی ہے ۔
سرمایہ نظام کے خلاف بغاوت اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ مارکسی نظریات سیدھے سادھے بیانیے اور عام زندگی سے اخذ کردہ ہیں ،ٹھونسے نہیں گئے۔
فردوس نامی ایک کردار کے نسوانی کرب کو عورت کی نظر سے دیکھا اور ایسے تیکھے لہجے میں تفصیل اور شدت کے ساتھ پیش کردیا کہ مرد کی جابرانہ برتری کا بھانڈا پھوٹ گیا۔فردوس نامی کردار کے ذریعے ہی قدامت پرست نظریات کی جس انداز سے نفی کی گئی وہ نیا بیانیہ ہے جسے قبول کرنے میں وقت لگے گا۔