Skip to product information
1 of 1

Devendar Issar | Four Books Set

Devendar Issar | Four Books Set

Regular price Rs.1,900.00
Regular price Rs.3,100.00 Sale price Rs.1,900.00
Sale Sold out

 (ابھی آرڈر کرنے پر  2300 روپے  اور ہفتہ  کے بعد 2500 روپے)

تعارف

دیوندر اسر | ادب کی آبرو

نئی صدی کی دہلیز پر 

ابھی بیسویں صدی ختم نہیں ہوئی کہ ادیبوں اور دانشوروں نے ہر فکر شے اور فن کے خاتمے یا موت کا اعلان کر دیا ہے ۔ خدا، انسان ، مذہب ، تاریخ ، نظریہ ، مارکسیت ، فن، ادب اور ادیب نابود یا پوسٹ “ ہو گئے ہیں (احساس مرگ اور لکھنا مستقبل کا)۔ اس عہد مرگ میں دنیا کی تاریخ ایک ایسے موڑ پر آگئی ہے جہاں جدیدیت اور مارکسیت اپنی کامرانیوں کے تمام تر دعووں کے باوجود شکست دریخت کا شکار ہو چکی ہیں۔ لہذا ان کے بعد آنے والے دور کو ما بعد جدیدیت کے عہد سے موسوم کیا جانے لگا ہے۔ کیا یہ احساس مرگ ایک بھولا ہوا بھیانک خواب بن کر رہ جائے گا یا اپنے گرداب میں سب کچھ بہا کر لے جائے گا؟ 

 آخر یہ مابعد جدیدیت کیا ہے ؟ کیسے وجود میں آئی ؟ اس کی شناخت کے خدو خال کیا ہیں ہے (مابعد جدیدیت کا منظر نامہ ) کہیں ایسا تو نہیں کہ جدیدیت نے جو ریڈیکل موڑ لیا ہے ما بعد جدیدیت اُسے از سر نو لکھ رہی ہے ۔ اور ہم جدیدیت کا خاتمہ نہیں بلکہ نئی جدیدیت کا آغاز دیکھ رہے ہیں۔ اُس جدیدیت کا جو کلاسیکی اور صنعتی دور کی جدیدیت سے الگ ہے ۔ کیونکہ جدید کاری ایک نہ ختم ہونے والا مسلسل عمل ہے ۔ (ما بعد جدیدیت یا جدیدیت تحریر ثانی) - نئی صدی میں داخل ہوتے ہوئے ہمارے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ کلاسیکی دور کی ماضی پرستی ، جدیدیت کی حال پرستی اور مابعد جدیدیت کی مستقبل پرستی کے بعد پوسٹ ۔ پوسٹ ماڈرن ازم کا منظر نامہ کیا ہوگا ہے 

دنیا کی تاریخ میں ہر چند سو سال بعد کمیتی اور کیفیتی طور پر ایسی حیرت انگیز تبدیلیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں کہ ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ گزشتہ تاریخ ، معاشرہ ، تہذیب ، فکر اور فن سب بدل گئے ہیں ۔ اور حیات و کائنات کے بارے میں ہمارا رویہ ہمارے معاشی، سماجی اور سیاسی نظام، ہمارا ادب اور فن ، ہمارا ور لڈویو ، ہمارا ظاہر و باطن ، ہماری بنیادی قدریں ۔ غرضیکہ پرانی تعمیریں منہدم ہو جاتی ہیں اور فکر و اظہار کے نئے پیکر اور اُسلوب جنم لیتے ہیں۔ جسے تاریخ کا تسلسل کہا جاتا ہے اس میں مسلسل عدم تسلسل کی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر تبدیلی نئی امید، نئے خدشات اور نئے  امکانات کو جنم دیتی ہے ۔ جدیدیت سے مابعد جدیدیت کی تبدیلی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ کیا نئی صدی کے دہانے پر ہم ایک بار پھر ایسی ہی تبدیلیوں کے روبرو ہو رہے ہیں۔ سائنس اور ٹکنا لوجی نےانسان اور کائنات کے بارے میں ہمارے تصورات کو ہی نہیں بدلا بلکہ انسان اور کائنات کو ہی بدل دیا ہے ۔

ادب اور جدید ذہن | دیوندر اسر

تعارف

اردو زبان و ادب میں مختلف تحریکات و رجحانات کے زیر اثرمثبت او رمنفی تبدیلیاں ہوتی رہی،جس میں حلقہ ارباب ذوق،ترقی پسند تحریک ،جدیدیت ،مابعد جدیدیت کے اثرات ادب پر زیادہ رہے۔ان تحریکات و رجحانات نے مختلف ادوار میں قلمکاروں کو اپنی جانب متوجہ کیا،جس سے متاثر ہوکر ادب تخلیق کیا گیا۔جدیدذہانت کے حامل تخلیق کاروں نے جدیدیت کا آغاز کرتے ہوئے، جدید ادب تخلیق کیا ۔پیش نظر اسی ادب کا مطالعہ ہے۔کتاب کے موضوع سے متعلق مصنف دیویندرسرا رقمطراز ہیں۔"یہ کتاب جدید تہذیب اور اس سے پروردہ نئے ذہن کے دائرے میں ہم عصر اد ب کا مطالعہ ہے۔ظاہر ہے کیلنڈر کی کسی تاریخ سے جدید ذہن کے یوم پیدائش کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔جدید ذہن سے مراد وہ ذہنی اور سماجی فضا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد پید اہوئی اور جس نے ادب اور اقدار کو گہرے بحران میں لا پھینکا ہے۔"مصنف نے جدید ادب سے متعلق مختلف موضوعات پر مبنی مضامین کو یکجا کرتے ہوئے ،جدیدیت کی تعریف ،تشریح اورجدید نظریات کی وضاحت کی ہے۔

فکر اور ادب | دیوندر اسر

ادب کی ماہیت ، اُس کا منصب اور اُس کی پرکھ ایک دوسرے سے ہمیشہ اس طرح منسلک رہے ہیں کہ انہیں الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے وجود کی شرط ان کا غیر منسلک باہمی رشتہ ہے کسی بھی شے کی پر کچھ کے لئے اس کی ماہیت اور اس کے منصب کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔ اُس شے کی ماہیت سے اس کے منصب کا تعین ہوتا ہے اور اس کی ماہیت کا یہ تقاضا ہے کہ اُس کا مخصوص مقصد حاصل ہو جائے۔ جس کے لئے وہ وجود میں آئی ہے یا لائی گئی ہے ہر شے کی تکمیل اس کے مخصوص استعمال میں ہے جس کو اُس شے کی ماہیت نے جنم دیا ہے۔ لہذا جن کے کچھ کی کسوٹی کا سوال اٹھتا ہے تو نہیں ان با ن باتوں پر غور کر نالازمی ہے کہ امس کرنالازمی شے کی ماہیت کیا ہے ؟ اس ماہیت سے کیا منصب والبتہ ہے ؟ اور اس منصب کی تکمیل کیسے ہو سکتی ہے اس کے بعد ہم عملی طور پر کسی فنی تخلیق کی قدر معبد ما قدر معین کر سکتے ہیں۔ ادب اور فن کی ماہیت ان کے منصب لہندا اسکی پرکھ کے معیار میں ہمیشہ اختلاف الرائے رہا ہے اسلئے من تنقید میں مختلف نظریے کا ر فرما نظر آتے ہیں نظریات کی ایسی کشمکش سے ادبی بحث کے رخ بدلتے رہے ہیں اور ادب میں گونا گوں تجر بے ہوتے رہے ہیں جن سے تخلیقی اور تنقیدی ادب کی ترقی کی نیت نئی راہیں دا ہوتی رہی ہیں۔

ادب اور نفسیات

پیش لفظ 

ادب اور نفسیات کے باہمی رشتے کو واضح کرنے کے لئے گوناگوں نظریات کے مطالعے اور تجزئیے کی ضرورت آج کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ ادبی مسائل پر کبت کے دوران میں سماجی، سیاسی، سائنسی، مذہبی اور اخلاقی نکات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب بھی ادیب کی شخصیت اور اس کے تخلیقی عمل پر بحث ہو گی نفسیات کا ذکر نا گزیر ہو گا۔ انسان کا ہر شعور ہی عمل بنیادی طور پر اس کے ذہن سے وابستہ ہے۔ چنانچہ اس کے تخلیقی عمل کو سمجھنے کے لئے اس کی ذہنی ساخت اور اس کے ذہنی عمل کا مطالعہ ضروری ہے۔ علم نفسیات کے ذریعے ہم ادیب کا مطالعہ اس کی انفرادی اور مثالی (ٹائپ) حیثیت سے کرنے کے بعد اس کے تخلیقی عمل کے سرچشے کا راز پا سکتے ہیں۔ اور اس طرح ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اس کا تخلیقی عمل ۔ کسی طرح پائے تکمیل کو پہنچا ہے اور اس کا اظہار ایک مخصوص شکل میں ہی کیوں ہوا ہے ؟ 

ادب میں نفسیاتی صداقت سے کیا مراد ہے ؟ ادبی تخلیقات میں نفسیاتی ٹائپ اور نقطہ نظر کو کیا مقام حاصل ہے ؟ ادیب داخلی یا خارجی محرکات سے جو محسوسات اخذ کرتا ہے ۔ انھیں کسی طرح ذہنی طور پر فن کے پیکر میں ڈھالتا ہے اور پھر کیسے انہیں خارجی شکل میں پیش کرتا ہے ۔ اس کے مختلف ہوتا ہے؟ کیا یہ سوال محض تیکنیک سے متعلق ہے یا اس کی کچھ نفسیاتی وجوہ بھی ہوتی ہیں۔ کسی ادیب کی تخلیقی قوت کو بروئے کار لانے کے لئے کون سے خارجی یا داخلی محرکات ضروری ہوتے ہیں۔ اور مختلف ادیبوں میں ان کی ماہیت یکساں رہتی ہے یا بدل جاتی ہے۔ کیا تخلیقی عمل شعوری ہوتا ہے یا لا شعوری ؟ کیا ادیب نورمل انسان ہوتا ہے یا اب نور مل؟ ادیب اپنی ذہنی ساخت کی مناسبت سے ادب اور سماج سے کس طرح مسلک ہوتا ہے ؟ ادیب اپنی تخلیقات سے کیوں اور کس طرح قارئین پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس نوعیت کے حملہ سوالات کا تعلق ادب اور نفسیات کے باہمی رشتے کے علاوہ علم کے دوسرے شعبوں سے بھی ہے۔ جدید ادب نفسیات کے نئے نظریوں کی روشنی میں فرد اور اس کے ذہنی عمل میں زیادہ سے زیادہ لچسپی لیتے لگا ہے ۔ جدید ادب میں ایک مخصوص نظریہ تو کردار کی ذہنی کیفیت کے بیان ہی کو اپنا مقصود سمجھتا ہے جدید ادب میں ہمیں اکثر اوقات فرد ، اس کے ذہن اس کی لاشعوری قوت اور ذہنی کیفیت کے گوناگوں تجربات کا بیان ملتا ہے ادب میں ان رجحانات کی اشاعت کا باعث فرائیڈ، ژونگ اور ایڈلر کے نظریات ہیں لیکن یہ کہہ دینا صحیح نہیں کہ فلاں ادیب فرائیڈ پرست ہے یار رنگ پریست عموماً ادیب کی تخلیقات میں کم و بیش ان تمام نظریات کی آمیزش ملتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بنیادی طور پر کسی ایک ماہر نفسیات سے متاثر ہوا ہو۔

 

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
View full details