یورپ کی ترقی | ولیم برنسٹین | Yourap Ki Taraki
یورپ کی ترقی | ولیم برنسٹین | Yourap Ki Taraki
پہلی بار جب برطانوی ماہر معاشیات اور فلسفی آدم سمتھ
نے خوشحالی کے لئے ضروری شرائط کی نشاندہی امن ، آسان ٹیکسز اور عادل قسم قابل برداشت انتظامیہ کی صورت میں کی تب سے بعد کے 250 سالوں میں ماہرین معیشت نے اس کی سادہ کی ترکیب میں کچھ چھان پھٹک کی ہے۔ دو رجدید میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی ہی معاشی افزائش کا اصل سرچشمہ ہے ۔ دماغ کے استعمال سے ایجادات ، ترقی، پیداوار اور بال آخر صرف کاری کے راستہ کی تلاش سے ہم قابل تفہیم معاشی ترقی کے قابل عمل ڈھانچہ کی تشکیل کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم معاشی ترقی کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر قوموں کی قسمت کی خاکہ کشتی بھی کر سکتے ہیں ۔
اس کتاب کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ کسی قوم کے ادارے ہی اس کی مدتوں پر محیط خوشحالی اور مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ ایسا کرنے میں اس قوم کے قدرتی وسائل، اس کا ثقافتی استحکام، قوت و جبروت، سیاسی و معاشی استحصال میں مہارت حتی کہ فوجی شجاعت کا بھی دخل نہیں ہوتا ۔ خوشحالی کا یہ راستہ چار عوامل / اداروں سے مزین ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ادارہ کمزور ہو تو انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ جب بھی کسی ملک میں یہ چاروں ادارے روبہ عمل ہوئے تو انسانی ذہانت تخلیق اور ادارے کے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ پاش پاش ہوگئی۔ ایجاد و اختراع میں توسیع ہوئی اور قوم کی خوش حالی نے اس ایجادو اختراع کے قدم چومے پیچھے چلی ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومتوں کو ٹیکنالوجی کے موجدوں کے لئے مناسب ترغیبات مہیا کرنی چاہئیں ۔ اگر ایجادات کا صلہ جائیداد کی ترقی کی صورت میں دیا جائے جیسا کہ قدیم چین میں ہوتا تھا تو سرے سے ترقی کا کوئی امکان ہی پیدا نہیں ہوگا۔ لہذا خوشحالی کے لئے سب سے اولین ضرورت ملکیتی حقوق کا تحفظ ہے۔ سمتھ کے الفاظ میں 'قابل برداشت عادل انتظامیہ' کاروبار کے ثمرات اگر معقول حد تک محفوظ نہ ہوں، تو پیداوار اور ایجادات کرنے والے نا پید ہو جائیں گے۔ اگر مزدور کو اپنی اجرت کا زیادہ حصہ نہیں بچتا تو وہ مشقت نہیں کرے گا ۔ ملکیت کو کئی اطراف سے خطرات لاحق ہو
سکتے ہیں ۔ جرائم سے وابستہ افراد، جابر حکمران اور کبھی کبھار اچھی نیت کے حامل سرکاری افسران اور کسی فلاحی ریاست کے بنک بھی اخراجات اور افراط زر پر قابو نہ پاکر ملکیت یا جائیداد کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں ۔ کلیدی تصور اس معاملے میں یہ ہے کہ اختیارات کی تقسیم کر کے حکومتیں قانون کی عملداری کے ذریعہ اور آزاد عدلیہ کے ذریعہ مالکانہ حقوق کا تحفظ کر سکتی ہیں ۔ سادہ کی بات ہے کہ کسی حکمران کا چاہے وہ کتنا ہی دانا اور عادل کیوں نہ ہو شخصی فرمان اور من مانی اس کی قانونی ساکھ کو بر باد کرتی ہے۔ حکمران طبقہ سے بالکل الگ تھلگ بے تعصب اور بے لاگ عدلیہ کے سوا کسی کا فرمان بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جو قانون حکمران سمیت ہر شہری پر برابری سے لاگو نہیں ہوتا وہ قانون کہلانے کا مستحق نہیں۔
اگر چه قدیم یونان اور رومی جمہوریہ میں ہی پہلی بار قانون کی عملداری کا نفاذ ہوا تھا مگر پانچ صدیوں سے زیادہ عرصہ تک رومی جمہوریہ کے خاتمہ کی وجہ سے قانون کی یہ عملداری نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ قرون وسطی کے دوران یہ دوبارہ برطانیہ میں ظہور پذیر ہوئی ۔ بیسویں صدی کے افسوسناک سیاسی تجربات نے ہمیں سمتھ کے سادہ مگر گمراہ کن جملہ کی حقیقت پر متنبہ کیا۔ صرف موثر عدلیہ کا وجود کافی نہیں، عدلیہ کو کلی طور پر حکمران کی طاقت ۔ سے الگ ہونا چاہئے اور اس کے فیصلوں کا سب پر یکساں اطلاق ہونا چاہئے۔
سمتھ کے الفاظ میں ٹیکس کا نظام بہت سہل اور آسان ہونا چاہئے کیونکہ ریاست عوام سے بہت زیادہ نہیں لے سکتی ۔ یہ بہت زیادہ کی حد کہاں تک ہے؟ امریکا اور یورپ کی فلاحی ریاستوں کے تجربات سے ایک خام تخمینہ لگا یا جا سکتا ہے۔ ایک خوشحال قوم اپنی پیداوار کا فیصد 30 با آسانی برداشت کر سکتی ہے جیسا کہ امریکہ میں ہوتا ہے مگر جب حکومتیں شمالی یورپ کے بہت سے ممالک کی طرح %50% کی حد تک پہنچ جاتی ہیں تو تب معاشی افزائش پر اس کے بھیانک اثرات ہوتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ موجدوں کے پاس مناسب علمی وفنی ذرائع ہونے ضروری ہیں۔ ایک ماہر مستری اپنے ہتھوڑے، آری یا پیمانے کے بغیر بالکل کچھ نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح ایک موجد بھی اپنے ماحول کی ترجمانی کرنے والے موثر علمی ڈھانچہ کے بغیر مفلوج ہے ۔ 1600 ء سے پہلے یونان ، روم ، چین ، ہندوستان اور یورپ کے ذہین ترین نیچرل فلسفی بھی ذہنی و علمی ڈھانچہ کے درست اور اک سے عاری تھے ۔ مغربی فرد کا ضمیر اعلیٰ ادب فنون اور فنون لطیفہ میں پنہاں نہیں ہے ، ان علوم کے سرچشمے یونان اور روم کی ثقافت سے پھوٹے ، بلکہ مغربی شخص کا ضمیر تجرباتی چھان پھٹک کی تیز و تند روشنی کے سامنے اپنے تسلیم عقائد کو سرنگوں کرنے کی سادہ سی خواہش میں محصور ہے ۔ یہی حقیقت آج مغرب کو باقی دنیا سے ممتاز کرتی ہے ۔ یونان کی سائنس اور منطق ویسے تو بہت با سطوت تھی مگر وہ حقیقی دنیا کی تلخ حقیقتوں کا نقاب نہ پلٹ سکتی اور وہ انسانیت کو فطرت کا قابل بھروسہ مفید ڈھانچہ مہیا کرنے میں ناکام و نامرادر ہے۔