Skip to product information
1 of 1

نوجوانوں کا گیت | Song of Youth | یانگ مو | Yang Mo

نوجوانوں کا گیت | Song of Youth | یانگ مو | Yang Mo

Regular price Rs.800.00
Regular price Rs.1,500.00 Sale price Rs.800.00
Sale Sold out
1930 ء سے 1935ء تک کا زمانہ چین کیلئے ایک تاریک دور کی حیثیت رکھتا تھا،ملک بدترین قومی بحران کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا،جاپانی سامراجی 18 ستمبر 1931ء کو چار شمال مشرقی صوبوں پر قبضہ کرنے کے بعد چین کے مزید علاقے ھتھیانے کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے،انہوں نے یکے بعد دیگرے شنگھائی ، چھاھار اور سوئی یوآن پر حملے کئے،مشرقی ھپے پر قبضہ کرلیا اور شمالی چین کے پانچ صوبے ھتھیانے کے لیے چالیں چلنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک تباہی کے کنارے پہنچ چکا تھا لیکن کومنتانگ حکومت نے اطاعت پسندی کی پالیسی اپنا رکھی تھی اور وہ کئی ایسے سمجھوتوں پر دستخط کر کی تھی جن کے نتیجے میں متعدد علاقوں میں جاپان کو اقتدار اعلی حاصل ہوچکا تھا۔ اس نے انقلابی اڈوں اور سرخ فوج کا خاتمہ کرنے کے لیے کئی بار لاکھوں کی تعداد میں فوجیں بھیجں۔یہ سرخ فوج اور انقلابی اڈے چینی کمیونسٹ پارٹی نے قائم کئے تھے جو ثابت قدمی سے جاپانی جارحیت کی مزاحمت کر رہے تھے۔آخر میں کومنتانگ حکومت نے ایک طرف تو سرخ فوج کا تعاقب کرنے اور اس کی راہ روکنے کیلئے فوجیں بھیجیں جو جاپان کی مزاحمت کیلئے شمال کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی اور دوسری طرف اپنے زیر تسلط علاقوں میں لاتعداد کمیونسٹوں اور محبان وطن کو پس زنداں ڈال دیا یا تہ تیغ کردیا۔نتیجتا محب وطن نوجوانوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی زیر قیادت کٹھن اور پر عزم جدوجہد شروع کردی ۔ 1935ء کے موسم سرما میں جب جاپان نے ھپے اور چھاھار میں کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے پورے شمالی چین کیلئے خطرہ پیدا کردیا تو پئی پھینگ ( پیکنگ ) کے طلبا نے " چین کے لوگو، وطن کو بچانے کیلئے میدان میں کود پڑو ! " کا نعرہ بلند کرتے ہوئے 9 دسمبر کی عہد آفریں تحریک شروع کردی ،جو جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمت کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی ۔
" نوجوانوں کا گیت " انہی واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ ان گنت جواں سال اور داروسن کی آزمائشوں سے بے پروا ہوکر دشمن کے خلاف سخت جدوجہد کی۔ایک گرتا تھا تو دوسرا اس کی جگہ سنبھال لیتا تھا۔کچھ ایسے تھے جنہوں نے مسکراتے ہوئے موت کو سینے سے لگالیا۔انہیں یقین تھا کہ مالک کا مستقبل روشن ہے۔ بہت سے ایسے تھے جو شہیدوں کے خون سے لالہ زار راستے پر پیش قدمی کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر 1949 ء میں چین آزاد ہوا اور لاتعداد شہیدوں کے خواب کی تعبیر۔۔۔۔۔۔۔ آذاد چین نے مثال پیمانے پر سوشلزم کی تعمیر میں مصروف ہو گیا۔ہم لوگ جنہیں فتح کے خوش رنگ پھول دیکھنے نصیب ہوئے،ان مجاہدوں کو فراموش نہیں کرسکتے جنہوں نے ان پھولوں میں اپنے لہو سے رنگ بھرا اور یہی جذبہ 1950ء میں اس ناول کی تخلیق کا محرک بنا۔میں نے انقلابیوں کی جرات و جانبازی کے متعلق جو دیکھا اور سنا تھا اس نے میرے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ جن برسوں کی یہ کہانی ہے،ان میں میں خود ایک طالبہ تھی،تاہم تعلیم جاری نہ رکھ سکی اور تلاش معاش میں بھی ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ ان دنوں چین کے دانشور شدید مصائب سے دو چار تھے اور نوجوانوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کا ساتھ دیں اور انقلاب میں شریک ہوجائیں ۔ یہی بات ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے لین تاؤ چینگ کا کردار تخلیق کیا۔یہ کہانی پرانے سماج کے خلاف ایک جواں سال دانشور کی صدائے احتجاج ہے۔
روشنی،اندھیرے سے ذیادہ طاقتور ہے۔شرافت،رذالت پر غالب آتی ہے۔بے لوثی کو حرص و آز پر اور خوشی کو دکھوں پر حاوی ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔ہمیں حقیقی انسانوں کی طرح زندگی بسر کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔میں نے اس کتاب میں یہی مدعا پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔مجھے امید ہے کہ یہ کہانی غیر ملکی دوستوں کو چینی انقلاب کی کامیابی اور چینی عوام، خصوصاً نوجوانوں کی بے باک جدوجہد کا عندیہ سمجھنے میں مدد گی۔۔ اور یہ میرے لئے ایک بڑا اعزاز ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یانگ مو ۔۔۔۔۔۔مئی 1963 ء

نوجوانوں کا گیت | Song of Youth
یانگ مو | Yang Mo
صفحات 448
View full details