قوم کیا ہوتی ہے ؟ اس کے بننے میں کیا کیا چیزیں اہم ہوتی ہیں اور پھر قوم سے قومیت کا نظریہ کیوں ؟کس طرح اور کس لیے پھوٹتا ہے اس ساری تاریخی بحث و معلومات پر یہ کتاب مبنی ہے۔ نظریہ قومیت کی ابتدا ٕ ارتقا ٕ اسباب اور اس وقت قومیت کے حوالے سے علمی دنیا میں پاۓ جانے والے مختلف نظریات اور ان کی تفصیل اس تحقیقی کتاب میں موجود ہے۔
قومیت کسی بھی خطے کی اساسی شناخت ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کے تحت رواج پانے والی تاریخی روایات، اقدار، رسوم، اجتماعی احساس، مشترکہ مفاد اور زبان و اطوار باہم مشترک ہوتی ہیں۔ یہی وہ قومیت کا بنیادی وظیفہ ہے جو باہمی انسلاکات اور اشتراکات پر یقین رکھتا ہے۔
غلام اصغر خان کی کتاب "نظریہ قومیت: عالمی و مقامی تناظر" اپنے موضوع کے حوالے سے ایک اہم متن ہے جس میں انھوں نے مقامیت کی تہہ در تہہ متنوع جہات کو بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر قوم اور قومیت، قومیت کے خصائص و علائم، قومیت کے نامیاتی اجزا، تحریک قومیت کا آغاز و ارتقا، قومیت کے فوائد، قومیت کے نقصانات، قومیت کی اقسام، اسلام کا نظریہ قومیت اور برصغیر میں نظریہ قومیت کا ارتقا و پس منظر جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
نظریہ قومیت عالمی و مقامی تناظر
تحقیق و تصنیف| غلام اصغر خان
قومیں اوج کمال تک پہنچ سکتی ہیں بشر طیکہ ہر شخص قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے . یہ فطرت کا ایک غیر متبدل قانو ن ہے کہ انسان اپنی ایک طبعی عمرکے بعد دنیا سے کوچ کرجاتا ہے۔اسی طرح قومیں بھی افراد کی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنی تمام حشر سامانیوں، فتح و کامرانی اور شکست و ریخت کے بعد زوال پذیرہوجاتی ہیں۔ موت کے بعد انسان کے عروج و زوال اور شوکت و عظمت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مابعدموت انسان کے لئے دنیاکی زندگی کا تصورر بھی محال ہے۔لیکن قوموں کی زندگی اس کلیہ سے مستشنیٰ ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم سے وابستہ افراد اپنی سعی و جستجوسے قوم کے مردہ جسم میں روح پھونک سکتے ہیں۔ قوم افراد تیار نہیں کرتی بلکہ افراد کے ہاتھوں قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔قوموں کا عروج و زوال اس کے افراد کے علم و شعور سے وابستہ ہوتا ہے۔ قومیں اپنے تمام تر زوال اور شکست و ریخت کے باوجود اوج کمال تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں بشر طیکہ ہر شخص قوم کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار انجام دے۔
زوال کو عروج میں کیسے بدلیں
علامہ اقبالؒ نے اپنے لیکچرReconstruction Religion Theory of Islam
میں فرمایا کہ ’’مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے‘‘۔مسلمانوں کی فکر کئی صدیوں سے مفلوج اور منجمد ہوچکی ہے۔ یورپ نے چرچ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جس طرح ترقی حاصل کی ہے اسی طرح ہمارے بعض ذی العلم روشن خیال اسکالرز بھی مکمل فکری آزادی کی وکالت کرتے نظرآتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ سائنس سے دوری ہے جب کہ مغرب میں سائنسی علوم کے زوال کا سبب ان کی مذہب سے دوری بنے گا۔ اسی تناظر میں مشہور فلسفی نٹشے کہتا ہے کہ’’جو تہذیب ماضی میں دیوقامت افراد پیدا کررہی تھی وہ اب بالشتے پیدا کر رہی ہے۔‘‘اخلاقی اقدار سے عاری یہ مادیت کے پرستار استعمار کے ہتھیار سے لیس ہوکر انسانی جذبات کی پاسداری کرنے کے بجائے انھیں نفع اور نقصان کے ترازو میں تول کر اللہ کی زمین کو نمونہ جہنم بنانے پر تلے ہیں۔