لاہور جو میں نے دیکھا | Lahore Jo M Ny Dekha
لاہور جو میں نے دیکھا | Lahore Jo M Ny Dekha
Regular price
Rs.350.00
Regular price
Rs.700.00
Sale price
Rs.350.00
Unit price
/
per
مسعود حیات صاحب کا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے تھا جو بڑے نامور ہوگذرے ہیں ۔ لاہور بلکہ برصغیر پاک و ہند میں ان پہلوانوں نے بڑا نام کمایا ہے ۔ آج مسعود حیات عوامی طور پر مشہور نہیں لیکن فن پہلوانی فن مصوری ، فن موسیقی کے حلقے ضروران کے نام سے واقف ہیں ۔ مسعود حیات 15 ستمبر 1936ء کو لاہور میں فاروق گنج کے علاقے میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے والد کا نام شیخ غلام دستگیر اور والدہ کا نام امیر بیگم تھا۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ سے تعلیم حاصل کی ۔ 1962ء میں نیشنل بنک آف پاکستان میں اکاؤنٹس آفیسر کے پیشے سے منسلک ہوۓ۔ 1969ء میں ان کی شادی ماہ جبین نامی خاتون سے ہوئی ۔ان سے تین بچے ہوۓ ۔ جن میں بڑا بیٹا عثمان مسعود ، پھر دو بیٹیاں آمنہ مسعود اور رابعہ مسعود ہیں ۔ بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا بہت کم عمری میں نہایت خوبصورت پینٹنگ بنائی جس پر سب حیران رہ گئے اس کے بعد با قاعدہ طور پر پینٹنگ سیکھتے رہے۔ برصغیر پاک ہند کے نامور مصور عبد الرحمن چغتائی اور استاد اللہ بخش کی شاگردی میں ان سے مصوری کے اسرار و رموز سیکھے ۔ مصوری میں ان کا موضوع لا ہور کی گمشدہ ثقافت ، تاریخی عمارات ماحول اور انسانی اقدار کی کمی ان کا خاص موضوع تھا۔ لاہور اور اسلام آباد میں ان کی پینٹگز کی نمائشیں منعقد ہوتی رہیں لیکن کبھی بھی کسی سرکاری یا نجی سطح پر کوئی حوصلہ افزائی اور ایوارڈ یا انعام نہیں دیا گیا۔ اپنے خاندانی فن پہلوانی کوفروغ دینے کے لئے انہوں نے نیشنل اسٹائل ریسلنگ ایسویسی ایشن نامی تنظیم قائم کی ۔ اس تنظیم کی جانب سے چھوٹے اور غیرمعروف پہلوانوں کو متعارف کیا۔فن پہلوانی اور اکھاڑوں کی تاریخ پر ایک کتاب بھی ترتیب دی ۔ سماجی، اخلاقی اقدار کے علمبردار تھے ان موضوعات پر روز نامه جنگ ، روز نامہ خبریں ، روز نامہ ایکسپریس، روز نامه امروز ، روزنامہ نواۓ وقت ، ہفت روز فیملی میگزین ، ہفت روزہ اخبار جہاں ، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں مضامین لکھتے رہے ۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے حامی تھے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کو ملک کی مضبوطی اور عوام کی خوشحالی کی وجہ سمجھتے تھے ۔ زندگی کے آخری سالوں میں خان نشین ہوکر رہ گئے۔ صرف مصوری اور مضامین لکھنے میں وقت گزارنے لگے ۔ پچھلے 90 سالوں کے اخبارات کے تراشے اور جمع کردہ تصاویر، لکھے گئے سینکڑوں مضامین اور دو کتا ہیں ان کی علمی میراث ہیں ۔ انہوں نے 17 ستمبر 2020 ءکولاہور میں وفات پائی۔ بیرون شیر نوالہ دروازہ مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور میانی صاحب قبرستان میں ان کے خاندانی احاطے نظام الدین میں سپردخاک کیا گیا۔ ان کی علمی میراث کو ان کے بیٹے عثمان مسعود سنبھالے ہوۓ ہیں ۔ یہ کتاب ان کی لاہور میں زندگی کے مشاہدے پر مشتمل ہے جس میں لاہور کی تہذیب و ثقافت ، انسانی و اخلاقی اقدار کی تبد یلی اور بدلا ؤ جس کو آنکھوں دیکھا اس کا بیان شامل ہے ۔
لاہور جو میں نے دیکھا
مصنف مسعود حیات
تالیف سید فیضان عباس نقوی
صفحات 256