Skip to product information
1 of 1

سید اسد علی | شہرِ حقیقت میں کہانی لکھنا

سید اسد علی | شہرِ حقیقت میں کہانی لکھنا

Regular price Rs.150.00
Regular price Rs.200.00 Sale price Rs.150.00
Sale Sold out

شہرِ حقیقت میں کہانی لکھنا

            مجھے صرف تھوڑی سی یکسوئی درکار تھی اور میں وہ کہانی لکھ سکتا تھا۔ مجھے اس خیال کے ساتھ رہتے اتنی دیر ہو چلی کہ اب تو میں اس کہانی کے کرداروں کو پہچاننے لگا تھا۔ جیسے آپ پرانے محلے داروں کو پہچاننے لگتے ہو۔ جیسے آپ ان کے بارے میں غیر ضروری باتیں جاننے لگتے ہو۔ باتیں جنہیں جاننے کی آپ کبھی کوشش نہیں کرتے مگر پھر بھی پتہ نہیں کیسے وہ آپ کے شعور کا حصہ بنتی جاتی ہیں۔ جیسے محی الدین صاحب کے گھر سے اٹھنے والی بگھاری دال کی خوشبو، جیسے فاروق صاحب کے پرانے سائیکل کا جھومتا ہوا ٹائیر، جیسے مہرالنسا کے معاشقے۔

            تو یہ سب جاننے کے لئے آپ کو کوئی کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ بس یونہی گلی میں سے گذرتے ہوئے ایک نظر کھڑکی میں کھڑی بنی سنوری مہر النسا پر پڑتی ہے اور ساتھ میں گلی کی نکڑ پر موٹر سائیکل صاف کرتا فیصل نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ جیسے سب کچھ سمجھ جاتے ہو۔

            تو ایسے ہی اس کہانی کے کردار بھی میرے اردگرد بکھرے تھے۔ بہت بار میں نے ایک بوڑھے کو گلی کی نکڑ پر بچھے بنچ پر چائے پیتے دیکھا۔ بہت بار ایک لڑکی مجھے کالج کی سیڑھیوں پر بیٹھی دکھائی دی۔ بہت بار ایک لڑکا میرا نیلا کوٹ پہنے بازار میں جاتا دکھائی دیتا۔ میں انہیں اتنی بار دیکھ چکا تھا کہ وہ اب میرے لئے اجنبی نہیں رہے تھے۔ میں انہیں جانتا تھا۔ گرچہ میری گلی کی نکڑ پر کوئی بنچ نہیں تھا، میرے کالج میں کسی لڑکی کا آنا ہی ناممکن تھا اور نیلا کوٹ۔ ۔ ۔ وہ تو میرے پاس کوئی تھا ہی نہیں۔

            وہ سب کردار حقیقت اور خیال کی سرحد پہ تیر رہے تھے۔ کچھ ایسے کہ ان کی بڑی بڑی آنکھیں میرے چہرے پہ جمی تھیں۔ وہ مجھے ایسے تکتے تھے جیسے ان کی روح میں دبی ساری تشنگی، انکے جسم سے جھلکتی ساری حسرت بس میری وجہ سے ہو۔ جیسے میں کوئی بھیانک دیو تھا جو خیالو حقیقت کی سرحد پہ انہیں روکے کھڑا تھا۔ جیسے اس شہرِ حقیقت اور انکے بیچ بس میری کمینگی حائل ہو۔

            اور میں۔ ۔ ۔ میں تو بہت بے بس تھا۔ شاید اس چوکیدار کی طرح جسے صاحب نے غریب رشتہ داروں کو گیٹ سے ہی واپس بھیج دینے کا حکم دے رکھا ہو۔ اب ان غریبوں کی ساری آہیں، سب بد دعائیں اس چوکیدار سے ٹکرا کر رہ جاتی ہیں۔ صاحب اب بھی ان کے لئے ایک معصوم فرشتہ ہی ہے۔ ۔ ۔ اور اس چوکیدار کی قسمت دیکھیں کہ چند روپوں کے لئے ہزاروں بد دعاؤں کا بوجھ لئے کھڑا ہے۔

            میں یقیناً ان کی مدد کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے مجھے بس تھوڑی سی یکسوئی درکار تھی۔ مگر یہ تھوڑی سی یکسوئی کوئی آسان چیز نہیں۔ یہ آسان اس لئے نہیں کہ میں اسی کوشش میں ہزار بار ناکام ہو چکا تھا۔ کبھی کوئی امتحان سامنے آ جاتا، کبھی والدہ کی بیماری آڑے آتی، بہت بار دوست یار کھینچ کر سینما لے جاتے اور میرا خیال کسی امید، کسی خواب کے پہلو میں دبک جاتا۔

            پڑھائی ختم ہوئی تو گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ میں بہت خوش تھا کہ گھر اور دوستوں سے دور ایک لیکچرار کی پر فراغت زندگی میں شاید اس کہانی پر کام کر سکوں۔ میرے کرداروں کے چہروں پر بھی ایک زندگی سی دوڑ چلی تھی۔ بوڑھا اب کسی ریستوران میں بیٹھا نظر آتا، لڑکی اب پہلے سے بلند سیڑھی پر پہنچ گئی تھی اور میں نے ایک نیلا کوٹ بھی خرید ڈالا تھا۔

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
View full details