ایک صدی کا قصہ | نعمت امینوف | انصارالدین ابراہمیوف
ایک صدی کا قصہ | نعمت امینوف | انصارالدین ابراہمیوف
مؤلف کی طرف سے
مشائخ کہتے ہیں کہ باپ کا اپنے بیٹے کی تعریف کرنا خلاف ادب نہیں ہے۔ یہ تو اس بات کے مترادف ہے کہ فلال اپنے بنائے ہوئے کوزے کی تعریف کرے، لیکن یہ فرزند کی عین سعادت مندی ہے کہ وہ اپنے باپ کی نصیحتوں کو اکثر یاد کیا کرے بلکہ وہ اس کی سبق آموز صفات دیگر افراد کو بتائے تو یہ ثواب ہی ثواب ہے۔
میرے پدر بزرگوار اوستا امین نور اللہ ہائے اوغلی پچھلے سال یکم دسمبر کو ایک کم سو سال کی عمر میں اس دنیا سے رحلت کر گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔
میرے قبلہ گاہ نے جیسا کہ حضرت بہاؤ الدین نقش بندی کی طریقت میں کہا گیا ہے: ”دل به یار و دست به کار" کے عقیدے پر عمل کرتے ہوئے ساری عمر آہن گرمی کے پیشے اور عبادت سے گزاری۔ انقلاب کے زمانے کی افراتفری میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر پائے لیکن قوی حافظہ کے مالک ہونے اور بخارا شریف میں رہنے والے مذہبی ارکان کی صحبتوں میں اکثر شامل ہونے کی وجہ سے وہ مختلف عمر اور پیشے کے لوگوں سے گفتگو کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے کئی شعراء علماء اور دیگر شہرت یافتہ دانش ور ان سے ملاقات کرنے کے تمنائی رہتے تھے۔ والد صاحب سے مجھے ان کی زندگی میں بہت باتیں سننے کا اتفاق ہوتا رہا۔ میں انہیں من و عن لکھ لیا کرتا تھا۔ اب کافی عرصے کے بعد میں نے انہیں دیکھا تو وہ باتیں بہت بھلی معلوم ہوئیں۔ محترم قاری! اس چھوٹے سے کتابچہ کی اشاعت سے والد صاحب کو ایک عظیم عالم یا دانش ور بنا کے پیش کرنا مقصود نہیں بلکہ ایک سیدھے سادے اور متقی لوہار کی ایک صدی کی زندگی کی تصاویر کے ذریعے از بیک قوم کی تاریخی قسمت پر ایک نظر ڈالنا ہے۔انشاء اللہ ان سطور کو بھی پڑھنے والے مل جائیں گے۔