انسانی علوم کے کلامیے میں ساخت ، نشان اور کھیل | Jacques Derrida | ڈاکٹر خرم شہزاد
انسانی علوم کے کلامیے میں ساخت ، نشان اور کھیل | Jacques Derrida | ڈاکٹر خرم شہزاد
ابھی تک ژاک دریدا کے مذکورہ متن کے بارے میں جو نکات پیش کیے گئے ہیں ان کی مدد سے، اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغرب کے فلسفیانہ متون میں اس کی حیثیت نمایاں ہے۔ اسی وجہ سے اردو تنقید میں بھی اس کا ذکر مختلف حوالوں سے ہوتا آیا ہے۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اردو تنقید میں اس متن کی جو تعبیر کی گئی وہ اس متن سے کسی حد تک مطابقت رکھتی ہے؟ چوں کہ اردو تنقید میں اس متن کا حوالہ اہم سمجھا جاتا ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اسے اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کی اشد ضرورت تھی تا کہ اس میں پیش کردہ مباحث پر زیادہ بہتر انداز میں بات ہو سکے۔ تاہم ابھی تک اس متن کا ( مناسب ) ترجمہ اردو قاری کے سامنے نہیں آسکا تھا۔
اس متن میں پیش کردہ تناظر مغرب کی فلسفیانہ روایت سے منسلک ہے چناں چہ اسے اردو زبان میں ترجمہ کرتے وقت اگر ترجمے میں ( زبان کے حوالے سے ) مطلوبہ تہذیبی رچاؤ کا اہتمام نہ کیا گیا تو متن ، آدھ کئے جملوں کا انبار بن جائے گا۔ سو ترجمے کے دوران پیدا ہونے والے اس گھمبیر مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے دریدا کے متن کا ترجمہ انسانی علوم کے کلامیے میں ساخت ، نشان اور کھیل“ کے عنوان سے کیا جا رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب بھی مذکورہ مسئلے سے چھٹکارا نہ ملا ہو تا ہم اس ضمن میں ایک ( طالب علمانہ ) کاوش ضروری تھی۔
( پیش لفظ سے مقتبس )