Skip to product information
1 of 1

کچھ یادیں۔۔۔۔کچھ باتیں | Koch Yaday___ Koch Batay

کچھ یادیں۔۔۔۔کچھ باتیں | Koch Yaday___ Koch Batay

Regular price Rs.200.00
Regular price Rs.300.00 Sale price Rs.200.00
Sale Sold out

ارشد رضوی صاحب کی "کچھ بے ترتیب کہانیاں"

کچھ کتابیں اپنے نام ہی سے متوجہ کرلیتی ہیں، جیسے یہ افسانوں کی کتاب ”کچھ بے ترتیب کہانیاں“ ہے، میں نے جب پہلی بار اِس کتاب کا نام پڑھا تو بہت اپنا اپنا سالگا، جی میں پہلا خیال یہی آیا کہ ہاں بالکل افسانوں کی کتاب کا نام یونہی "بے ترتیب" ہی ہونا چاہیے، اب معلوم نہیں کہ اِس کے پیچھے میری ذہنی بے ترتیبی تھی یا زندگی کی بے ہنگامی لیکن عجیب بات ہے کہ آشفتہ سری، جنون اور بے ترتیبی جیسے الفاظ ہمیشہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔۔۔ \nمیں نے اِس کتاب کو بے ترتیب انداز ہی میں پڑھا ہے، اُس کی بنیادی وجہ محترم جناب اسد محمد خاں صاحب کی پہلے صفحے پر موجود رائے تھی جو کتاب میں نمبر چھبیس پر موجود افسانے ”اُس کے ساتھ رہنے کی عادت کے دن“ کے بارے ہے۔۔سو میں نے بھی کتاب اِسی افسانے سے پڑھنا شروع کی۔۔۔اِس کتاب میں کُل بتیس افسانے ہیں جو اِس بے ترتیب معاشرے کی بے ترتیبی کے عکاس ہیں، اِس بارے ارشد رضوی صاحب خود لکھتے ہیں کہ ”جس معاشرے میں میں نے آنکھ کھولی ہے اُس نے ایسے ہی کردار مجھے دئیے ہیں، معاشرے کی بے ترتیبی کرداروں کے بے ترتیبی میں نظر آسکتی ہے۔۔۔ \nزیادہ تر افسانوں کے نام طویل ہیں جیسے۔ \n”ایک چھوٹے سے قصے سے جڑابڑاسانحہ“ \n”ایک مسمار ہوتے گھر کی خواب آلود کہانی“ \n”نہ ملنے والی آنکھوں کی تلاش“ \n”زندگی سے جڑا ہواشخص“ \nایسا کیوں ہے کہ آج کل افسانوں کے نام طویل ہوتے جارہے ہیں؟ بطورِافسانہ نگار جب یہ سوال میں خود سے بھی کرتا ہوں تو کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملتا، میرے اپنے افسانوں کے نام بھی طویل ہو گئے ہیں اور ایسا کوئی شعوری کوشش نہیں ہے، آپ نے اکثر افسانہ نگاروں کے افسانوں کے نام آج کل طویل ہی دیکھے ہوں گے۔۔۔یہ شاید اِس دور کے افسانے کا انداز ہے، افسانہ سفر کررہا ہے، بہت سی چیزیں تبدیل ہوتی جارہی ہیں اور افسانہ اپنے کرافٹ میں نیا پن لاتا جارہا ہے۔۔۔ \nارشد رضوی صاحب اُن افسانہ نگاروں میں سے ہیں جن کی کہانیاں باہر سے زیادہ انسان کی داخلی کیفیات سے جُڑی ہوئی ہیں،جس کی وجہ سے افسانوں میں ایک ابہام کی کیفیت بھی نظر آتی ہے۔۔۔ \nاپنے افسانوں کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ \n”کہانیوں سے میرا رابطہ کب اور کیسے ہوا، مجھے نہیں معلوم مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ کب میں نے خود کو ایک کہانی کار کی حیثیت سے جانا، مجھے کچھ بھی معلوم نہیں،ہاں صرف یہ معلوم ہے کہ بہت سے سوالات شعور اور لاشعور کی مٹی سے آگے تھے، تیز اور نوکیلے، جن کے جوابات دینے تھے، میں انہی سوالات اور جوابات کی فکری بحث میں الجھا تھا کہ کہانی نے اپنے طورسے مجھے اپنے رابطے میں لیا۔۔۔۔“

\n

یہ مجموعہ فکشن ہاؤس نے چھاپا ہے، ایک شکایت جومجھے پبلشر سے ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے پروف ریڈنگ پر زیادہ محنت نہیں،یہ دکھ کی بات ہے کہ ایک اتنے شاندار افسانوی مجموعے کی پروف ریڈنگ پر توجہ نہ دی گئی۔۔۔امید ہے جب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن آئے گا تو پروف ریڈنگ کے یہ مسائل نہ ہوں گے۔۔۔ \nصاحبو لیکن آپ یہ افسانے ضرور پڑھیں کہ یہ اِس دور کی کہانیاں ہیں۔۔۔۔

\n

محمدجمیل اختر

View full details