Skip to product information
1 of 1

پاکستان میں تہذیب کا ارتقا | سبط حسن

پاکستان میں تہذیب کا ارتقا | سبط حسن

Regular price Rs.1,395.00
Regular price Rs.1,495.00 Sale price Rs.1,395.00
Sale Sold out
پاکستان میں تہذیب کا ارتقا از سبط حسن -چند تاثرات
تہذیب کیا ہے؟ریاست اور قوم میں کیا فرق ہے ؟ ریاست کی سرحد تو جغرافیہ کی مدد سے مقرر کی جاسکتی ہیں لیکن قوم کی کوئی سرحد ہو سکتی ہے؟مادی اور جغرافیہ عوامل تہذیب و تمدن کو کیسے متاثر کرتے ہیں؟آیا ہم پہلے پنجابی ہیں یا پاکستانی یا پھر مسلمان ؟پاکستان کی کوئی تہذیبی شناخت وجود رکھتی ہے یا محض قومی وحدت برقرار رکھنے کی ریاستی مجبوری سے زیادہ کچھ نہیں؟
سبط حسن نے ان تمام سوالات پر سیر حاصل بحث سے اس کتاب کا آغاز کیا ہے۔پاکستان کی جغرافیائی حدود میں پنپنے ، پروان چڑھنے اور شکست و ریخت کا شکار ہونے والی ان تمام تہذیبوں کا تجزیہ تاریخی اور مادی عوامل کے تغیر سے کیا گیا ہے۔ وادی سندھ کے زمانے سے لے کر مغلوں کے زوال تک کا تین ہزار سالہ تاریخی سفر نہایت سہولت سے بیان ہوا ہے ۔وادی سندھ کی قدیم تہذیب ، آریائی حملے ، یونانی، ساکا ،پارتھی ، کشن اژرات، پھر سندھ میں اسلام کا آغاز، ایران و ترک تسلطنت ،سلاطین دہلی اور مغلوں کے زوال سے انگریز کی آمد۔ان سب الگ الگ باب میں بات کی گئی ہے۔محمد بن قاسم کی سندھ پر مہم سے پہلے امیر معاویہ کے دور میں بھی دو مہمیں ہند کو فتح کرنے کے لیے بھجیں گئیں مگر وہ ناکام لوٹیں ۔ محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو مقامی بودھ قبائل کی مدد سے سندھ میں شکست دی ۔ ان پودھ قبائلوں کی حکومت راجہ چچ (راجہ داہر کا باپ)نے غصب کی تھی ۔ یہی اس زمانے کا دستور تھا کہ مغضوب گروہ کسی طاقتور حملہ آور سے مل جاتا اور اپنے پرانے بدلے چکاتا ۔ ابراہیم لودھی سے بھی جب اس کے پٹھان امراٗ نا خوش ہوئے توبابر کو بلاوا بھیجا کہ بھئی آ اور اس سالے سے ہماری جان چھڈا مگر وہ ایسا آیا کہ پھر اگلے کئی سو برس تک ہندوستان میں باہر سے کوئی حملہ آور نہ آسکا۔ اسی کے خاندان نے حکومت جمائی۔ٹیکسلا کا زمانہ قدیم میں علم پرور شہر سے زمانہ جدید میں توپوں و ٹینکوں کی فیکٹری والے شہر کا سفر بھی از حد دلچسب ہے۔
تہذیب حملہ آوروں کی مار کٹائی کا نام نہیں بلکہ حملہ آوروں اور مقامی انسان کی باہمی میل ملاپ سے جنم میں آنے والے سماج کا نام ہے ۔اس تہذیب کو سینچنے میں لوگوں کا رہن سہن ، مذاہب کی ادلا بدلی ، فن تعمیر ،نظام فکر و احساس اور فنون لطیفہ سب کا اپنا اپنا حصہ ہے ۔ کیسے مذہب پر قابض راجائوں اور پنڈتوں کے زیر عتاب طبقے نے اسلام کو خوشی خوشی قبول کیا۔ملتان میں کئی ایسے اسماعیلی داعی آئے جنھوں نے اسلامی عقائد کی ترویج مقامی زبانوں میں کی۔صوفیا ریاستی مولویوں کے نشانے پر رہے ۔ مولوی مذہب کا ٹھیکے دار بنا رہا ۔ عوام کو دوزخ سے ڈرایا اور خود بادشاہ سے ڈرا۔مال و متاع کے لیے مذہب فروشی کی ۔آج بھی کرتا ہے ۔ ہندوستان میں کئی تہذیبیں آئیں اور اپنا وقت پورا کر کے فنا ہو گئیں ۔ لیکن اس ارتقائی عمل میں ان کی کئی نشانیاں باقی بچ گئیں جن سے تہذیب کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ شیر شاہ سوری ،مادھو لال حسین ،امیر خسرو، بھگت کبیر ، داراہ شکوہ ، اکبر و اس کے نو رتن ، چند پرشکوہ عمارات اور بہت سے گمنام اس کہانی کے نمایاں کردار ہیں۔
مملکت خدادا کے شناختی بحران کے تار و پود بھی اسی تہذیب کے ارتقائی عمل میں پیوستہ ہیں۔گزرے ہوئے کل کو سمجھنا گویا حال کو سمجھنا ہے۔نظریہ ضرورت کے تحت وضع کردہ شناخت کی ریاستی پروپیگنڈا سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ۔جن گروہوں کا مفاد وحدت اور اکائی کے ڈھکوسلے سے جڑا ہے وہ اسی کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور جو طبقات صوبائیت پرستی اور تکژیریت(pluralism) میں اپنا منافع دیکھتے ہیں وہ اسی کا ڈھول پیٹتے ہیں۔جاگیردار کبھی بھی وحدت نہیں چاہے گا کیونکہ یہ اس کے جبر کو سوٹ ہی نہیں کرتی اسی طرح سرمایہ دار وحدت کا حامی ہو گا ۔ایک ملک ایک قوم کا راگ الاپتا رہے گا کیونکہ منڈی کا بھاگ سرمایہ ہے اور وہ مال بیچنے سے آتا ہے۔ یہ نعرے طبقات کی باہمی کشمکش کا ایندھن ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔آج اس ملک میں بسنے والے باشندہ شناخت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں ۔ سبط حسن صاحب کی کتاب ہر اس شخص کو لازماً پڑھنی چاہیے جو خود کو ریاستی شناخت کے مسلط کردہ جبر سے ذہنی طور پر ہے آزاد کرنا چاہتا ہے ۔ضرور پڑھیں ۔ کراچی سے مکتبہ دانیال نے پبلش کی ہے ۔
فرقان وحید
View full details