Skip to product information
1 of 1

شاہ محمد کا ٹانگہ | علی اکبر ناطِق | Ali Akbr Natiq

شاہ محمد کا ٹانگہ | علی اکبر ناطِق | Ali Akbr Natiq

Regular price Rs.450.00
Regular price Rs.600.00 Sale price Rs.450.00
Sale Sold out
شاہ محمد کا ٹانگہ (مکمل افسانہ)
علی اکبر ناطِق
مَیں دیر تک بوسیدہ دیوار سے لگا، ٹانگے کے ڈھانچے کو دیکھتا رہا، جس کا ایک حصّہ زمین میں دھنس چکا تھا اور دوسرا سُوکھے پیڑ کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا، جس کی ٹُنڈ مُنڈ شاخوں پر بیٹھا کوا کائیں کائیں کر رہا تھا۔ کچھ راہ گیر سلام دُعا کے لیے رُکے لیکن میری توجہ نہ پا کر آگے بڑھ گئے۔ مجھے اُس لکڑی کے پہیے اور بمبو کے ڈھانچے نے کھینچ کر تیس سال پیچھے لے جا پھینکا۔
لَے بھئی جوان! شاہ محمد نے چھانٹے کی لکڑی ٹانگے کے پہیے سے ٹکراتے ہوئے بات شروع کی، اُن دنوں مَیں ممبئی میں تھا اور جوانی مجھ پر پھوٹی پڑتی تھی اور خون تازہ تھا۔ بس وہ کار جاپان سے بن کر نئی نئی ہندوستان پہنچی کہ مَیں نے خرید لی (اِس بات کے دوران اُس نے چھانٹا پھر گھومتے ہوئے پہیے کے ساتھ لگا دیا، جس کی رگڑ سے گڑررر گڑررر کی آواز پیدا ہوئی اور گھوڑا مزید تیز ہو گیا) اور لگا ممبئی کی سڑکوں پر دوڑانے۔ میاں جوانی اندھا خون ہوتا ہے، ٹیلے گڑھے نہیں دیکھتا، رگوں میں شراب کی طرح دوڑتا ہے اور میری کوئی جوانی تھی؟ شہابی رنگ تھا اور کٹاری سی مونچھیں، پھر گاڑی کا ہاتھ آ جانا قیامت ہو گیا، سوار ہو کر سڑک پر آتا تو لوگ کناروں سے جا لگتے، کہتے بھائی! اوٹیں لے لو، شاہ محمد قضا پر سوار چلا آتا ہے۔ اُن دنوں کار پر سواری بٹھانا شرم کی بات تھی اِس لیے اکیلا ہی گھومتا۔ ممبئی کے ہجوم کا تو آپ کو پتا ہی ہے، لیکن مَیں نے کہا، شاہ محمد بات جب ہے، جب تُو گاڑی بھری سڑک پر ہوا کی طرح چلائے۔ پھر تھوڑے ہی دنوں میں سرکس والوں کو پچھاڑنے لگا۔
تو کیا آپ سرکس میں کام کرنے لگے تھے؟ مَیں نے حیران ہو کر سوال کیا۔
او میرے بھتیجے! شاہ محمد نے گھوڑے کو چھانٹا مار کر مزید تیز کر دیا، سرکس والی بات تو میں مثال دینے کے لیے کر رہا ہوں۔ میرا اُن مداریوں سے کیا تعلق؟ وہ بچارے تو پیٹ بھرنے کے لیے یہ دَھندا کرتے ہیں، روزی روٹی کی تھوڑ اُن کو موت کے رسوں پر چلاتی ہے۔ اِدھر تجھے تو پتا نہیں، پر اللّٰہ بخشے تیرا دادا میرے باپ کو جانتا تھا۔ ہم پُرکھوں سے نواب تھے۔ لاکھوں ہی روپے اِن ہاتھوں سے کھیل تماشوں میں جھونک دیے۔ خیر چھوڑ اِن باتوں کو، بات جاپانی کار کی ہو رہی تھی۔ ممبئی کی سڑکوں پر دوڑاتے دوڑاتے پورا سپرٹ ہو گیا اور حد یہ ہوئی کہ چلتے ہوئے بڑے ٹرالروں کے نیچے سے گزارنے لگا۔ یوں ایک چھپاکے سے چلتے ٹرالر کے درمیان سے نکل جاتا، جیسے بھوت اُڑ جائے۔ ممبئی میں میری مثالیں بن گئیں۔
اب میرے کان کھڑے ہوئے۔ مَیں نے شدید حیرانی سے پوچھا، وہ کیسے چاچا شاہ محمد؟
ہاہا، شاہ محمد نے مونچھ پر ہاتھ پھیر کر گھوڑے کو برابر تھپکی دی اور بولا، جوان یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آ سکتی، بس تُو چپ کر کے سُنتا جا۔ ایک دن عجیب قصّہ ہوا، مَیں کار میں جا رہا تھا، قدرت خدا کی دیکھو، وہ واحد دِن تھا جب میری رفتار ہلکی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں، سڑک کنارے ایک آدمی نڈھال اور بُرے حال میں زخمی بھاگا جا رہا ہے۔ محسوس ہوتا تھا، ابھی گِرا۔ اُس کے پیچھے پولیس ہوٹر مارتی چڑھی آ رہی تھی۔ مَیں نے سوچا، بچارا مارا جائے گا، کچھ خدا ترسی کر دے۔ اُسی لمحے مَیں نے کار اُس کے پاس لے جا کر کھڑی کی اور کہا بھئی جلد بیٹھ جا۔ لَو جی، اِدھر وہ گاڑی میں بیٹھا، اُدھر مَیں نے ریس دبا دی۔ اب پیچھے پولیس اور اُس کی ہوٹریں اور آگے مَیں۔ وہ بندہ بہت گھبرایا کہ ابھی پکڑے جائیں گے۔ اب اُس بھڑبھوسیے کو کون بتائے کہ وہ کس کے ساتھ بیٹھا ہے؟ مَیں تو جانتا تھا، بیچاری ممبئی پولیس کی کیا اوقات ہے، سو سال ٹریننگیں لے پھر بھی میری ہوا کو نہ پہنچے۔ ٹکے ٹکے کے سپاہی روٹی روزی کی مصیبتوں میں پھنسے، چور تھوڑی پکڑتے ہیں؟ بچاروں نے رزق کا پھندا لگایا ہوتا ہے، ہمارا کیا مقابلہ کریں گے۔ اب ممبئی کی سڑکیں تھیں، ہماری کار تھی اور پولیس کی دس گاڑیاں۔ مَیں نے چلتے ہوئے پوچھا، بھائی کیا لفڑا کر کے بھاگے ہو، کہ اِتنے غنڈے پیچھے لگا لیے؟ تحمل سے بولا، سیٹھ بھیم داس کھتری کی تجوری لوٹی ہے، کھتری کے چاقو بھی لگ گیا ہے، اب بُرا پھنسا ہوں، پکڑا گیا تو سیدھا پھانسی گھاٹ فلائی ہو گی۔ میرے تو ہوش کی ایسی تیسی پھر گئی۔ او تیرے مُردوں کی خیر۔ بھیم داس کھتری کروڑوں کا مالک۔ پورے ممبئی میں اُسی کے سُود کا سکہ چلتا تھا۔ اُس کی تجوری لوٹنے کا مطلب تھا راتوں رات سیٹھ بن جانا۔ مَیں نے پوچھا، مگر تم تو خالی ہاتھ ہو؟ بولا، ابھی چندرا کھیم کے پُل نیچے پھینک آیا ہوں، بس ایک دفعہ اِن لفنگوں سے جان چھڑا دو، تمھیں مالا مال کر دوں گا۔ مجھے غصہ تو بہت آیا کہ یہ کون ہوتا ہے ہم نوابوں کو مالا مال کرنے والا؟ مگر اُس کی ناسمجھی دیکھ کر غصہ پی گیا، البتہ ریس پر پاؤں کا دباؤ مزید بڑھ گیا، جس کی وجہ سے کار اب چلتی نہ تھی گویا اُڑتی تھی۔
اتنے میں ایک بکریوں کا ریوڑ سڑک سے گزرنے لگا اور شاہ محمد کو گھوڑے کی لگام کھینچنا پڑی، اس کے ساتھ اُس کی داستان بھی رُک گئی، وہ بدمزگی سے بولا، یار یہ اَیالی لوگ بھی خدا جانتا ہے، زلزلے کی گھڑی پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں سے گزرتے ہیں ہر چیز کا ناس پھیر دیتے ہیں۔ سڑکیں تو اِن کے باپ کی ہوتی ہیں، جو اپنے نام لکھوا لیتے ہیں۔ دیکھ، کس سکون سے کاپا کاندھے پر رکھے اکڑتا جا رہا ہے، جیسے نادر شاہ کا سالا ہو۔۔۔ ایالی کو آواز دیتے ہوئے، او بھائی جلدی کر، گھوڑا بدکتا ہے، بھیڑوں کو جلدی ہانک لے، اُف خدا وندا کیسا شیطانی آنت کا ریوڑ ہے؟ ایالی نے شاہ محمد کی آواز سُنی ہی نہیں، اُسی بُردباری سے سڑک کے درمیان چلتا رہا۔ شاہ محمد پر یہ دورانیہ صدیوں پہ محیط ہو گیا مگر انتظار کے سوا کیا کر سکتا تھا؟ قصّہ سننے کی بے چینی مجھے بھی تھی لیکن میری طبیعت میں ذرا اطمینان تھا۔ خدا خدا کر کے ٹانگے کے گزرنے کا رستہ بنا تو شاہ محمد نے شکر کا کلمہ پڑھا اور دوبارہ گھوڑے کو چابک دکھایا۔ گھوڑے نے چال پکڑی تو مَیں نے کہا، چاچا پھر آگے کیا ہوا؟
یار اِس ایالی نے بات کا مزہ ہی ہَوا کر دیا۔ خیر، تو بھائی مَیں کہہ رہا تھا، مجھے اُس دمڑی گیر کی بات پر بہت غصہ آیا لیکن یہ سمجھ کر پی گیا کہ نا سمجھ ہے، جانے دو۔ گاڑی، پتا نہیں کتنے میل کی سپیڈ پر تھی، میٹر کی سوئی پر تو مَیں نے نظر نہ کی، البتہ پہیے کبھی زمین پر لگتے تھے، کبھی نہیں، عین اُسی لمحے ہمارے سامنے بہتّر (۷۲) اِنچ کے پہیوں والے دو ٹرک آ گئے۔ ایک دائیں سے، ایک بائیں سے۔ اب کیا تھا، پیچھے پولیس، آگے دو ٹرک اور سڑک تنگ۔ مَیں نے کہا، لے بھئی شاہ محمد یہی وقت ہے عزت بچانے کا، اب پرائی مصیبت سر پر لی ہے تو اِسے بھگت اور کھیل جا جان پر۔ لو جی، مَیں نے فوراً ہی فیصلہ کیا۔ اُسے کہا، کاکا مضبوط ہو جا اور پھرتی سے کار کو ایک ٹرک کے نیچے سے گزار کر سڑک کے دوسری طرف ہو گیا۔
ٹرک کے نیچے سے؟ چلتے ٹرک کے نیچے سے؟ اُف میرے اللّٰہ، مجھ پر گویا حیرانی کا دورہ پڑ گیا۔ اگر کچلے جاتے تو پھر؟
ہاہاہاہاہا، زور کا قہقہہ، بیٹا اِسی کا نام تو ہشیاری اور کاری گری ہے۔ شاہ محمد نے سینہ فخر سے پھلاتے ہوئے کہا، اِن کاموں میں پلک جھپکنے کا حساب رکھنا پڑتا ہے، لمحے بھر کی غلطی ہوئی نہیں کہ بندہ اللّٰہ ہُو ہو جاتا ہے۔ بہرحال آگے سُن، دیکھا تو آگے سڑک ہی نہیں تھی، لمبی اور گہری کھائی تھی۔ بیلیا! یہاں بھی مری حاضر دماغی کام آئی، مَیں نے ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں ہینڈل کو دوسری طرف گھما دیا۔ بس یہ سمجھ لو، اُس وقت میری پھرتی سلیمان پیغمبر کے وزیر سے بھی زیادہ تھی۔ میری اِس تیزی سے یہ ہوا کہ گاڑی ایک طرف کے دو پہیوں پر ہو گئی۔ اب وہ کھائی سے تو بچ گئی لیکن سکوٹر کی طرح دو پہیوں پر ہی دوڑتی گئی، بھائی وہاں تو اچھا خاصا تماشا بن گیا۔ ممبئی کی خلقت بھاگ کر سڑک کے کنارے جمع ہو گئی۔ مَیں نے سوچا، ہماری تو جان پر بنی ہے اور اِنہیں دیکھنے کو کھیل مِل گیا۔ اب گاڑی کی رفتار اتنی تھی کہ بچارے میٹر کی سوئی کے بس سے باہر ہو گئی، اگر اُسی وقت چار پہیوں پر کرتا تو اُلٹ جاتی۔ مَیں نے سوچا، اِسے اِسی طرح جانے دو۔ وہ بھڑوا ایک دفعہ بولا، بھائی اِسے سیدھی کر لو ورنہ مَر جائیں گے۔ مَیں نے فوراً ڈانٹ دیا، نالائق چُپ رہ، جس کام کا پتا نہیں، درمیان میں نہیں ٹوکتے۔ کار کو تین میل تک اسی طرح دو پہیوں پر رکھا اور بھوت کی طرح نکل گیا۔ جوان، کیا زمانے تھے اور ایک یہ دن ہیں، ایالی رستہ نہیں دیتے۔ شاہ محمد کی بات جاری تھی کہ گاؤں آ گیا۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر بولا، لے بئی جوان باقی قصّہ کل پر۔ مَیں چھلانگ مار کر ٹانگے سے نیچے اُتر گیا۔
View full details