اتہاسک لاہور | مدثر بشیر | Ithaski Lahore | Muddassar Bashir
اتہاسک لاہور | مدثر بشیر | Ithaski Lahore | Muddassar Bashir
لاہور کی تاریخ پر ایک طالب علم کی حیثیت سے کام کرتے سالہا سال بیت گئے۔ گلیاں گھومتے، پرانی عمارات کو گرتے ، تباہ ہوتے دیکھا، کئی قبرستانوں پر جا کر عہد رفتہ کے مدفون خزانوں کو سلام پیش کیا۔ اپنی دانست میں جو بن پڑا، رکھتے مناظر کو پچھلی تحریروں سے ملا کر لکھنے کی کوشش بھی جاری رکھی ۔ کام اپنی مختلف اشکال میں احباب کی رسائی تک آیا، کبھی بذریعہ اخبارات تو کبھی جرائد کا حصہ بنتے ہوئے ۔ ستمبر 2011ء کو مادری زبان پنجابی میں کچھ کام کتابی صورت لہور دی وار میں آیا ۔ اب اتہاسک لاہور حاضر خدمت ہے۔
اتہاسک لاہور میں اُن شخصیات کا تذکرہ ہے جو اُردو ادب میں گراں قدر خدمات انجام دے چکی ہیں اور وفات کے بعد جن کی جائے مدفون کا اعزاز لاہور کے قبرستانوں کو حاصل ہوا۔ صرف اُردو زبان کے حوالے سے اس شہر میں بے شمار قد آور شاعر، ادیب اور صحافی مدفون ہیں ۔ اُن تمام مشاہیر کا احاطہ کرنے کے لیے شاید اس طرح کی دس کتب بھی کم ہوں ۔ اُن میں سے چنیدہ شخصیات کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ وہ شخصیات جو اس کتاب کا حصہ نہیں، وہ کسی طور بھی کسی سے کم تر ہیں۔ ہر ادیب، شاعر اور صحافی کا ایک اپنا خاص طرز تحریر اور طرز بیان ہوتا ہے۔ حضرت انسان کی تاریخ میں کوئی ایسی کسوئی ایجاد نہیں ہوئی جو تحریروں کے معیار کو جانچ سکے۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ چشم فلک نے کئی ایسے عظیم شعرا اور ادبا کو دیکھا جنھیں اُن کے اپنے عہد میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ لیکن اُن حضرات کی زندگی کے بعد جب اُن کے کام کو از سر نو دیکھا گیا تو وہ ادب کی عمارت کے مضبوط ترین ستون دکھائی دیے۔ اس حوالے سے انگریزی زبان کے شاعر جان کیٹس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ غور کیجیے تو تاریخ میں کئی ایسے درباری شاعر اور ادیب بھی دکھائی دیے جو شاہ کے مصاحب تھے اور اپنے عہد کے بڑے نام لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی پہچان ختم ہوتی گئی ۔ زیر نظر کتاب کی تحقیق و تحریر میں سب سے پہلا اور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کئی ایسے عظیم لوگ جن کا بے پناہ اعلیٰ درجے کا کام موجود تھا، تقسیم کے بعد وہ کس طرح نئی نسل اور آنے والی نسلوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے گئے ۔ ہمارے ہاں ایسے طلبا کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کہ ڈگری یافتہ ہے لیکن وہ محمد دین تاثیر اور اختر شیرانی جیسے ناموں سے نابلد ہے۔ اس کتاب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری نصابی کتب میں اکثر جگہوں پر یہ تحریر واضح طور پر ملتی ہے کہ جنگ آزادی یا غدر کے بعد مسلمانوں پر جدید تعلیم اور ترقی کے دروازے بند کر دیے گئے ۔ جب اُردو ادب کی تاریخ کو دیکھا جائے اور خصوصاً انیسویں اور بیسویں صدی کے ادب پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ سوال اپنی جگہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ انگریز سرکار ہی کے عہد میں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان شاعر، ادیب حضرات کہاں سے آگئے ۔ کئی ایسے خاندان بھی دکھائی دیتے ہیں جن کا پس منظر انتہائی پڑھا لکھا تھا۔ منٹو کے خاندان کو بیرسٹرز کا خاندان کہا جاتا تھا۔ سید لطیف کے خاندان کو آج بھی جوں کے خاندان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم ترین شے مسلمانوں کا عمومی رویہ تھا۔ اس ضمن میں میں کچھ حوالہ جات ایک مسلمان انڈین سول ل سرونٹ شوکت علی شاہ کی آپ بیتی خیال پور کا آدم خور سے پیش کر رہا ہوں جو رہا۔
اتہاسک لاہور کی تحقیق و تحریر میں ایک اور اہم پہلو بھی مد نظر رکھا گیا ہے کہ لاہور میں مدفون اکثر بڑے شاعر اور ادیب حضرات پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی مادری زبان میں کام کیوں نہ کیا؟ اگر کیا تو قارئین سے چھپا کیوں رہا ؟ اگر کہیں سے اُن کا کوئی کام ملا ہے تو اُسے بھی مناسب حد تک اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اردو زبان شاید دنیا کی واحد زبان ہے جس کی بڑی خدمت ایک دوسری زبان کے افراد یعنی اہل پنجاب نے کی ہے۔ خصوصاً بیسویں صدی کے آغاز سے آج تک اُردو اہل پنجاب کی ممنون ہے۔